’تھری ڈی‘ پرنٹنگ کے ذریعے بنایا گیا پہلا ہوائی جہاز
5 جون 2016جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد کیے گئے بین الاقوامی ایئر شو میں ایک ایسا جہاز نمائش کے لیے پیش کیا گیا، جو تھری ڈی پرنٹر کا شاہ کار ہے۔ یہ ہوائی جہاز یورپی طیارہ ساز کمپنی ایئر بس نے تیار کیا ہے۔ اِس کا نام تھور ہے۔ انگریزی میں Thor سے مراد Test of High-tech Objectives in Reality ہے۔ اِس جہاز نے نمائش گاہ میں ہر شخص کی توجہ حاصل کی۔
ایئر بس کے منی ہوائی جہاز کا وزن محض 21 کلوگرام یا 45 پاؤنڈ ہے۔ یہ بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والا ڈرون چار میٹر یا تیرہ فیٹ لمبا ہے۔ اِس میں کوئی کھڑکی نہیں رکھی گئی ہے۔ طیارہ ساز کمپنی نے ابھی اِس کو سفید رنگ سے تیار کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا ہوائی جہاز ہے جو مستقبل کی ایوی ایشن ٹیکنالوجی کی ابتدا ہے کیوں کہ ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ سے وقت کی بچت، ایندھن کا کم استعمال اور کم خرچ سے اشیاء تخلیق کی جا سکیں گی۔
تھور ہوائی جہاز کے اندرونی اجزاء، جو ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ کے حامل نہیں ہیں، وہ صرف الیکٹریکل حصے ہیں۔ ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ کے لیے پولی امائیڈ نامی کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔
ایئر بس ادارے میں تھور منی ہوائی جہاز کے پراجیکٹ کے انچارج ڈیٹلیو کونیگورسکی کا کہنا ہے کہ برلن ایئر شو میں امکاناً پہلی مرتبہ ایک ایسے جہاز کو پیش کیا گیا ہے، جو ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ ٹیکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے اور اگر اِس ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دے کر اشیاء کی ساخت کا عمل آگے بڑھا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اجزاء تیار کرنے کے بجائے کسی ہوائی جہاز کا ایک مکمل نظام تیار کیا جا سکے گا۔‘‘
تھور منی ایئر کرافٹ کے چیف انجینیئر گونار ہاسے کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹا سا ہوائی جہاز انتہائی عمدہ پرواز کا حامل ہے۔ اِس کی آزمائشی پروازوں کا سلسلہ شمالی جرمن شہر ہیمبرگ میں گزشتہ برس نومبر میں مکمل کیا گیا تھا۔ ہاسے کے مطابق پرواز کے دوران تھور اپنا توازن کمال خوبی سے برقرار رکھتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ ایئر بس کمنپی اور طیارہ سازی میں اِس کا حریف ادارہ بوئنگ پہلے ہی ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہا ہے۔ خاص طور پر ایئر بس A350 اور B787 ڈریم لائنر کے کچھ حصے ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ ٹیکنالوجی کی ساخت کے ہیں۔ اِس ٹیکنالوجی کے ایک ماہر ژینس ہینزلر کے مطابق ’تھری ڈی پرنٹنگ‘ سے تیار کردہ حصوں کو جوڑنے کے لیے چھوٹے آلات کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ جلد تیار بھی کیے جا سکتے ہیں۔ ہینزلر کے مطابق ایسے ہوائی جہاز ماضی کے ہوائی جہازوں سے تیس سے پچاس فیصد کم وزن کے حامل بھی ہوسکتے ہیں اور پیداوار کے دوران سامان قطعاً ضائع نہیں ہوتا۔