تہران میں عمران خان کا بیان حقیقت کا عکاس؟
24 اپریل 2019ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا،’’ میں جانتا ہوں کہ ایران اس دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے جو پاکستان میں سرگرم گروہوں کی جانب سے کی گئی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔‘‘
اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینیئر صحافی حامد میر نے کہا،’’ وزیر اعظم نے بلوچستان میں حالیہ واقعہ کا ذکر کیا تھا جس میں چودہ پاکستانی ہلاک ہوئے تھے اور ایران کی حکومت کو اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ پاکستان نے ایران کو بتایا ہے کہ ایران میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔‘‘ حامد میر کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے کو دیکھے جائے تو وہ بھی ایران کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا تھا اور ماضی میں جنداللہ تنظیم کے عسکریت پسند پاکستان سے پکڑے گئے ہیں۔ حامد میر نے کہا،’’ عمران خان کا اشارہ غیر ریاستی عناصر کی طرف تھا اور یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کچھ غلط نہیں کہا تاہم انہیں ایسے معاملات پر زیادہ حساسیت اور احتیاط سے گفتگو کرنا چاہیے۔‘‘
اورماڑہ حملہ آوروں کے اڈے ایران میں تھے، پاکستان
مثبت بیانات: کیا ایران پاکستان تعلقات میں بہتری آئے گی؟
اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر کئی افراد نے پاکستانی وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمان اور سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا،'' ہم اس ملک کے لیے فکر مند ہیں، ہمارا ملک تو لوگوں کے لیے ہنسی کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اب آپ اس ملک کی تقدیر کے ساتھ مزید نہیں کھیل سکتے۔‘‘پاکستان مسلم لیگ کے رکن خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بیرون ملک کسی پاکستانی وزیر اعظم نے اس طرح کا اعتراف کیا ہو۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اویس توحید نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ’’عمران خان کے ایک بیان میں سے ایک جملے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے۔ اس دورے میں پاکستانی وفد نے ایران کو اوڑمارا حملے سے متعلق شواہد فراہم کیے ہیں۔ اویس توحید کی رائے میں ایران اور پاکستان کے تعلقات میں اعتماد کا فقدان ہے۔ تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو افغانستان امن عمل اور بلوچستان میں سکیورٹی مسائل کے حل کے لیے ایران کی ضرورت ہے اور ایران اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے لہذا ایران کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے۔
اویس توحید نے کہا،’’ عمران خان کے بیان کے الفاظ کے چناؤ پر ایک سیاسی بحث تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے غلط معنی نکالنا پاکستان ایران تعلقات کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘