مثبت بیانات: کیا ایران پاکستان تعلقات میں بہتری آئے گی؟
22 اپریل 2019پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے، جو دو روزہ دورے پر اتوار 21 اپریل کو ایران پہنچے تھے، آج تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اسلام آباد کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک بد اعتمادی کی فضاء مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی۔
عمران خان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی ہے۔ وزیرِ اعظم کے دورہء ایران سے کچھ دن پہلے بلوچ عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے علاقے اورماڑا میں چودہ افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے گیارہ سکیورٹی اہلکار تھے۔ پاکستان نے اس واقعے پر تہران سے بھر پور احتجاج کیا تھا۔
چند ہفتے قبل جب ایران میں ایک فوجی پریڈ پر حملہ ہوا تھا تو ایرانی رہنماؤں نے بھی پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیے تھے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کئی معاملات میں مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ پاکستان کی سعودی عرب سے قربت کو تہران میں تشویش کی نظر دیکھا جاتا ہے جب کہ ایران کی نئی دہلی سے بڑھتی ہوئی قربت کو پاکستان میں شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ اسلام آباد کا اس پر بھی شکوہ ہے کہ ایران نے اپنی چابہار کی بندرگاہ پاکستان کے سخت دشمن بھارت کو دے دی ہے جب کہ ایران پاکستان کے اس فیصلے پر پریشان نظر آتا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب سعودی موجودگی کو ایران میں قدامت پسند حلقے سخت نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان میں کئی حلقے کسی فوری خوشگوار تبدیلی کی توقع نہیں کرتے۔ معروف مصنف اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد اکرم کے خیال میں پاکستان اور ایران کے تعلقات کو پاک سعودی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے: ’’ہمارے ملک میں جیسے جیسے سعودی سرمایہ کاری بڑھے گی ہم ایران سے دور ہوتے جائیں گے کیونکہ سعودی عرب کو یہ پسند نہیں ہے کہ تہران اور اسلام آباد میں قربت ہو۔ اسی وجہ سے ہم ان کے عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں اور وہ ہمارے علیحدگی پسندوں کی مد د کر رہے ہیں۔ تو ایسی صورت میں بھلے دونوں ممالک کے رہنما مثبت بیانات دیں۔ تعلقات میں فوری بہتری اور خوشگواری کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔‘‘
بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تہران بی آر پی اور بی ایل ایف (علیحدگی پسند بلوچ مسلح تنظیموں) کی حمایت کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیا ن تعلقات میں تلخی رہے گی۔‘‘
تاہم کچھ حلقے پاکستان ایران کے تعلقات کو سی پیک اور پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایران کے سرحدی علاقوں میں پاکستان مخالف عناصر کو عسکری تربیت دی جا رہی ہے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے مطابق، ’’ان علاقوں میں بھارت بلوچ عسکریت پسندوں کو تربیت دے رہا ہے اورایرانی حکام نے اس سے صرف نظر کیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ سی پیک کے مسئلے پر بھی ایران، بھارت ، امریکا اور مغرب ایک ہی پیج پر ہیں۔ پاکستان نے سی پیک کے ذریعے چین کو ایک نیا راستہ دے دیا ہے جو وہ آبنائے ملاکا بند ہونے کی صورت میں استعمال کر سکتا ہے۔ جس پر سی پیک مخالف عناصر چراغ پا ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود پاکستان کو ایران سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے: ’’اگر ہم ایران سے معاشی تعاون بڑھائیں تو پھر تہران ہم سے دور نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت اس کو پابندیوں کا سامنا ہے۔ ہمیں بھارت کی طرح امریکا سے استثنیٰ کی بات کرنی چاہیے تاکہ ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت بڑھے۔‘‘
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس تلخی کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کو بات چیت کا راستہ اپنانا چاہیے کیونکہ الزام در الزام سے معاملات خراب ہوں گے۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کے معاملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کچھ غلط فہمیاں ہیں: ’’لیکن یہ غلط فہمیاں بات چیت سے ہی حل ہوں گی۔ پاکستان کا یہ شکوہ ہے کہ ایران میں کچھ عناصر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، اسی طرح ایران کی بھی کچھ شکایات ہیں، جن کو ہمیں دیکھنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے سراغ رساں اداروں کے درمیان تعاون کو گہرا کر کے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتاہے۔‘‘
اورماڑہ حملے کے بعد پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس پر اپنا ردِ عمل علی الاعلان دیا۔ کئی سیاست دانوں کے خیال میں اس طرح کے مسائل پر خاموش انداز میں سفارت کاری ہونی چاہیے کیونکہ اعلانیہ الزامات سے تلخی بڑھتی ہے۔ سینیٹر طاہر بزنجو کا خیال ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پورے خطے کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے: ’’اس خطے میں 15 سے 20 پراکسی گروپس ہیں، جو مختلف انداز میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان کا دورہ تلخی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔‘‘
لیکن مبصرین کے خیال میں تہران اور اسلام آباد کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ موجود ہے۔ یمن سے لے کر مسئلہ شام تک دونوں مختلف سمتوں میں جارہے ہیں۔ تاہم سابق پاکستانی سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کے خیال میں ان تمام اختلافات کے باوجود مشترکہ نکات تلاش کیے جا سکتے ہیں: ’’سفارت کاری میں ممالک کے مختلف مفادات ہوتے ہیں۔ ماضی میں افغان جنگ اور دہشت گردی کے مسئلے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تلخی رہی ہے لیکن اب موقع ہے کہ ہم مشترکہ نکات تلاش کریں۔‘‘
ان کے خیال میں دونوں ممالک کی سر زمین کو دوسری قوتیں استعمال کر رہی ہیں: ’’یہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ پاکستان کی زمین ایران کے خلاف استعمال کی جائے اور ایران کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جائے۔ میر ے خیال میں کچھ بیرونی قوتیں ایسا کر رہی ہیں اور اس دورے سے اس طرح کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی اور دونوں ممالک کے درمیان آئی پی اور تجارت سمیت کئی مسائل پر پیش رفت ہوگی۔‘‘