تیزی سے بلند ہوتی سطح سمندر بنگلہ دیشی ساحلوں کو نگلتی ہوئی
23 جون 2024بنگلہ دیش میں ریاستی اداروں کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سطح سمندر میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ملک کے گنجان آباد ساحلوں کو بہت تیز رفتاری سے نگلتا جا رہا ہے اور اس صورت حال کے نتیجے میں ملکی ساحلوں علاقوں کے رہنے والے کم از کم ایک ملین شہری ایک نسل کے اندر اندر وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔
بنگلہ دیش کے محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل عبدالحمید نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ میں لکھا، ''بنگلہ دیش کی طرح تو بہت کم ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے دور رس اور متنوع اثرات کا تجربہ کر رہے ہیں۔'' تین حصوں پر مشتمل بنگلہ دیش سے متعلق اس تحقیقی مطالعے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کے بعض علاقوں میں سطح سمندر میں اضافہ عالمی اوسط کے مقابلے میں ساٹھ فیصد تیزی سے ہو رہا ہے۔
اس مطالعے میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور اسی شعبے کے چینی ادارے سی این ایس اے کے ایک چوتھائی صدی میں اکٹھا کیے گئے سیٹلائٹ ڈیٹا کی بنیاد پر انکشاف کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں میں سمندر میں پانی کی سطح میں اضافے کی موجودہ شرح کے باعث ''ایک ملین سے زیادہ انسانوں کو بے گھر ہونا پڑ سکتا ہے۔'' دنیا بھر میں سمندروں میں پانی کی سطح یکساں شرح سے نہیں بڑھ رہی، جس کی بنیادی وجہ زمین کی غیر مساوی کشش ثقل اور سمندری حرکیات میں تغیرات ہیں۔
واضح پیغام
اس مطالعے کی سربراہی کرنے والے سائنسدان سیف الاسلام نے کہا کہ بنگلہ دیش میں سمندر کی سطح میں اوسط سے زیادہ رفتار سے اضافے کا سبب برف کے پگھلنے، سمندروں کے گرم ہونے اور ہر مون سون میں خلیج بنگال میں آنے والے مختلف دریاؤں کے پانی کی بہت زیادہ مقدار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مطالعہ ایک ''واضح پیغام'' دیتا ہے کہ پالیسی سازوں کو ''تخفیف اور موافقت'' کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سیف الاسلام نے مزید کہا، ''حالیہ دہائیوں میں عالمی سطح پر ہر سال سطح سمندر میں 3.7 ملی میٹر اضافہ ہوا ہے، جبکہ ہمارے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں ساحلوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی سطح میں سالانہ اضافہ 4.2 سے لے کر 5.8 ملی میٹر تک ہوا ہے۔''
یہ اضافہ دیکھنے میں تو چھوٹا لگ سکتا ہے تاہم بنگلہ دیش کے ساحلوں کے ساتھ رہنے والے تقریباﹰ 20 ملین لوگوں کے مطابق یہ تباہی خوفناک لہروں کی شکل میں آتی ہے۔
'میری زمین پر مچھلیاں پانی میں تیر رہی ہیں'
عبدالعزیز بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ 2007 میں جب طوفانی ہواؤں نے بنگلہ دیش میں تباہی مچائی تو پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر عزیز نے بھی اپنا گھر کھو دیا۔ انہوں نے اپنا بچا ہوا سامان اٹھایا اور طوفانی لہروں کی پہنچ سے آدھا کلومیٹر دور اپنا ایک نیا آشیانہ بسا لیا۔ اس واقعے کے صرف ایک سال بعد سمندر نے اس علاقے کو مکمل طور پر نگل لیا، جہاں اس ماہی گیر کا پرانا گھر واقع تھا۔
اب 75 سالہ عزیز اپنے زیر آب سابقہ گھر کے اوپر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور قریب ہی ایک کنکریٹ کے پشتے کے دوسری طرف ان کا نیا گھر ہے۔ گرجتی ہوئی سمندری لہریں اس پشتے سے بھی زور دار انداز سے ٹکراتی ہیں۔
عبدالعزیز نے اپنے گمشدہ گاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ''وہاں میری زمین پر مچھلیاں پانی میں تیر رہی ہیں۔'' انہوں نے سمندر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا، ''یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم کہاں پناہ لیں؟'' سطح سمندر میں سبک رفتار اضافے کا خطرہ واقعی بڑھتا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے بیشتر ساحلی علاقے سطح سمندر سے صرف ایک یا دو میٹر بلند ہیں اور طوفان سمندری پانی کو مزید اندرونی علاقوں کی جانب لے جاتے ہیں۔ یوں کنوئیں اور جھیلیں کھاری ہو جاتی ہیں اور زرخیز زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
'امیر کریں، غریب بھریں'
بنگلہ دیش میں گزشتہاپریل کا مہینہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ گرم درجہ حرارت والا مہینہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ملکی محکمہ موسمیات کے مطابق مئی میں آنے والے ایک سمندری طوفان میں کم از کم 17 افراد ہلاک اور 35,000 مکانات تباہ ہو گئے تھے۔ حکام کے مطابق یہ ملکی تاریخ میں سب سے تیزی سے بننے اور سب سے زیادہ دیر تک باقی رہنے والا طوفان تھا۔ ان دونوں واقعات کا ذمہ دار بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو قرار دیا گیا تھا۔
ملکی دارالحکومت ڈھاکہ کی بریک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عین النشاط نے کہا کہ امیر ترین ممالک کی وجہ سے کاربن گیسوں کے اخراج کی قیمت غریب ترین لوگ ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اگر دوسری قومیں خاص طور پر امیر ممالک ماحول کے لیے مضر گیسوں کے اخراج سے لڑنے کے لیے کچھ نہ کریں، تو ہم بھی بنگلہ دیش کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔''
عین النشاط نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کے پاس موجود وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کو روکنے میں بہت دیر ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق، ''ہم تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔''
ش ر⁄ م م (اے ایف پی)