تیونس میں سیاسی زلزلہ، عرب حکمرانوں کے لئے خطرہ
17 جنوری 2011تجزیہ نگاروں کے خیال میں عرب حکمران اب عوام کے انتقامی جذبات کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ریاض میں سعودی حکومت کے ایک ناقد محمد القہطانی کا کہنا ہے، ’’تیونس میں پیش رفت عرب رہنماؤں کے لئے ایک زلزلے کی طرح ہے۔ اب یہاں کے حکمران اپنی حکومتوں کو بچانے کے لئے عوام کو کچھ آزادی، روزگار، تعلیم اور دیگر چیزیں فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
متحدہ عرب امارات میں منعقدہ ایک فورم میں کہا گیا ہے کہ عرب عوام اب مشکل ہی سے اپنے رہنماؤں کی پرانی سیاسی حکمت عملی کو قبول کریں گے۔ بہت سارے عرب حکمران خوفزدہ ہیں کہ تیونس جیسے واقعات ان کے ملک میں بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ 1973ء کی اسرائیل جنگ میں حصہ لینے والے ایک سابق فوجی کا کہنا ہے، ’’ تیونس کے لوگ جرت مند ہیں۔ انہوں نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی قسمت خود بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ مصر میں بھی تیونس جیسی صورتحال ہے اور عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
دوسری جانب سوشل نیٹ ورک ویب سائٹس پر بھی عرب لیڈران کے خلاف مہم جاری ہے۔ مصر کے صدر حسنی مبارک کے بارے میں فیس بک پر ایک پیج بنایا گیا ہے، جس پر تین عشروں سے برسر اقتدار 82 سالہ رہنما کو اپنا سازوسامان پیک کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایک فیس بک صارف نے لکھا ہے، ’’ اب بہت ہو چکا۔ ہم تنگ آچکے ہیں۔ اب ہم اپنے ملک کو دوسرے ہاتھوں میں جانے نہیں دیں گے۔‘‘
ایک دوسرے فیس بک یوزر نے لکھا ہے، ’’حسنی مبارک ایک جہاز تمہارے انتظار میں ہے۔‘‘
دوحہ میں بروکنگز سینٹر سے وابستہ شادی حامد کا کہنا ہے کہ عرب لیڈروں کو انتہائی تشویش ناک صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق لیبیا اور اردن میں بھی ایسے ہی واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب الجزائر میں بھی احتجاجی مظاہرے اسی وقت شروع ہوئے تھے، جب تیونس کے عوام سڑکوں پر تھے۔ شادی حامد کا مزید کہنا ہے کہ فوج اور طاقت کے استعمال سے عوام کوزبردستی کنٹرول کرنے کی پالیسی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے اور آہستہ آہستہ عرب لیڈروں کو اس کا اندازہ ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عدنان اسحاق