1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جدید ترک ریاست میں پہلے چرچ کی تعمیر

5 اگست 2019

سن 1923 میں ترکی کے جدید ریاست بننے کے بعد اس مسلم اکثریتی ملک میں پہلا چرچ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ترک صدر نے اس نئی مسیحی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3NLo7
TURKEY-POLITICS-RELIGION
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے استنبول کے نواح میں ایک نئے چرچ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ سن انیس سو تئیس میں ترکی کے جدید ریاست بننے کے بعد وہاں پہلی مرتبہ ایک نیا چرچ تعمیر کیا جا رہا ہے۔

استنبول کے نواح میں واقع یشئلکے میں تعمیر کیے جانے والے اس چرچ سے شامی مسیحی کمیونٹی کے سترہ ہزار افراد استفادہ کر سکیں گے۔ یہ کمیونٹی اس چرچ کی تعمیر کے لیے رقم بھی فراہم کر رہی ہے۔ شامی مسیحیوں کی بڑی تعداد مشرقی مسیحی روایات کی ماننے والی ہے اور وہ آرامی زبان میں عبادت کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے اسی زبان میں عبادت کی تاکید کی تھی۔

اس چرچ کی سنگ بنیاد رکھنے کی خصوصی تقریب سے خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے کہا کہ جمہوریہ ترکی کا فرض ہے کہ شامی کمیونٹی کی مذہبی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے انہیں ایک عبادت گاہ فراہم کی جائے۔ ایردوآن نے مزید کہا کہ یہ مسیحی لوگ اس علاقے کے قدیمی باسی ہیں۔

ترک صدر نے امید ظاہر کی ہے کہ شامی آرتھوڈکس سینٹ افرام چرچ نامی اس مسیحی عبادت گاہ کی تعمیر کا کام دو برسوں میں مکمل ہو جائے گا۔ سن دو ہزار نو میں جب ایردوآن وزیراعظم تھے، تو انہوں نے استنبول کی انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ اس چرچ کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتظام کرے۔

حالیہ برسوں میں ترک حکومت نے کئی پرانے چرچوں کی تعمیر نو کی اور انہیں دوبارہ عوام کے  لیے کھولا تاہم صدر ایردوآن کی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ایک سرکاری سیکولر ملک کو 'اسلامائز‘ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ترکی میں آباد آرمینائی مسیحی بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ مسلم اکثریتی ملک ترکی میں انہیں دوسرے درجے کے شہری طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسیحی ترکی کی بیاسی ملین آبادی کا صرف اعشاریہ دو فیصد بنتے ہیں۔

ترک صدر ایردوآن کی کوشش ہے کہ ان کی حکومت ملک کی تمام اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے۔ ہفتے کے دن اپنے خطاب میں بھی انہوں نے کہا کہ 'یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ریاست سبھی کی ہے‘۔ انہوں نے اصرار کیا کہ جو بھی ترکی کے ساتھ وفادار ہے وہ پہلے 'درجے کا شہری‘ ہے۔

ترکی کے ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی مسلم ہے لیکن گزشتہ برس کونڈا نامی گروپ کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق سن دو ہزار آٹھ تا دو ہزار اٹھارہ لادین ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سروے کے مطابق اس عرصے میں ترکی کی لادین آبادی ایک فیصد سے بڑھ کر تین فیصد تک پہنچ چکی تھی۔

ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں