ترکی مسیحیوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دے، جرمن صدر
22 اکتوبر 2010جرمن صدر کرسٹیان وولف ترکی کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔ جمعرات کو وہ تارسس کے تاریخی سینٹ پاؤل چرچ پہنچے، جہاں وہ عبادت میں بھی شریک ہوئے۔ انیسویں صدی کا یہ گرجا گھر اب ایک عجائب گھر میں تبدیل کیا جا چکا ہے تاہم وہاں عبادت کے لئے ترک حکام سے خصوصی اجازت لی گئی۔ اس عبادتی اجتماع کی قیادت جرمنی ہی سے تعلق رکھنے والے دو مذہبی رہنماؤں نے کی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ چرچ سینٹ پاؤل (مقدس پولوس) کی جائے پیدائش پر بنایا گیا، جہاں جمعرات کی عبادت میں ترکی کی یونانی، آرمینیائی اور دیگر کلیساؤں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ جرمن صدر وولف نے سینٹ پاؤلز چرچ میں مختلف کلیساؤں کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی، جس کا مقصد ترکی میں آباد مسیحیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا بتایا جاتا ہے۔ انہوں نے منگل کو ترک پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی کہا تھا کہ ترکی میں مسیحیوں کو وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو جرمنی میں مسلمانوں کو حاصل ہیں۔
گرجا گھر کے دورے کے موقع پر کرسٹیان وولف نے کہا کہ ترکی کے مسیحیوں کو بلا روک ٹوک اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی اور مذہبی رہنماؤں کی تربیت کی زیادہ سے زیادہ آزادی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اقدامات کے لئے وہ ترکی کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا، ’ہم درست سمت میں جا رہے، لیکن ابھی ہم منزل پر نہیں پہنچے۔‘
جمعہ ان کے دورے کا آخری دِن ہے، اسی روز وہ استنبول میں جرمن۔ ترکش یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔
خیال رہے کہ ترکی کی مجموعی آبادی سات کروڑ 20 لاکھ ہے، جس میں ایک لاکھ مسیحی ہیں۔ جرمنی کی آبادی آٹھ کروڑ 20 لاکھ ہے، جس میں 25 لاکھ ترک نژاد شہریوں سمیت 40 لاکھ مسلمان ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کرسٹیان وولف ترکی کا دورہ کرنے والے پہلے جرمن صدر ہیں۔ وہ ایسے وقت ترکی پہنچے، جب جرمنی میں غیرملکیوں کے انضمام سے متعلق بحث اہم موڑ پر ہے۔ انہوں نے رواں ماہ ہی ایک بیان میں کہا تھا کہ مسیحیت اور یہودیت کی طرح اسلام بھی جرمنی کا حصہ بن چکا ہے۔
دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ جرمنی میں بین الثقافتی معاشرے کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے۔ انہوں نے تارکین وطن کی جانب سے جرمن زبان نہ سیکھنے کو ایک مسئلہ قرار دیا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ