جرمنوں سے شادیاں کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے ویزوں سے انکار
26 مارچ 2023لِنڈا وینٹ اور مورو ڈیوپ کی شادی ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اپنی اپنی روزمرہ زندگی ایک دوسرے سے ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سے زائد کی دوری پر رہتے ہوئے ہی گزار رہے ہیں۔ یہ فاصلہ دراصل جرمنی اور سینیگال کا درمیانی فاصلہ ہے۔
کم عمری کی شادیاں: جرمن حکام کے لیے ایک بڑا مسئلہ
مورو ڈیوپ کے مطابق، ''طویل فاصلوں کی محبت بہت مشکل ہے۔ مجھے اپنی بیوی صبح، دوپہر، رات، ہر وقت مسلسل یاد آتی ہے۔‘‘ جرمن شہری لِنڈا وینٹ 2020ء میں چھٹیاں منانے مغربی سینیگال گئیں، جہاں مورو ڈیوپ رہتے تھے۔ انہوں نے 'زوم‘ کے ذریعے ایک مشترکہ انٹرویو میں کہا، ''ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہمیں ایک دوسرے سے پیار ہو گیا۔‘‘
وینٹ اس دوران ایک طالبہ کے طور پر جتنی مرتبہ ہو سکتا تھا، سینیگال جاتی تھیں۔ انہوں نے انٹرن شپ کی اور اپنی سمسٹر کی چھٹیاں بھی وہیں گزاریں۔ 2022 ء میں اس جوڑے نے مورو کے آبائی شہر بور میں اپنے اپنے اہل خانہ اور بہت سے مہمانوں کی موجودگی میں شادی بھی کر لی۔
شادی مگر خوشگوار انجام کے بغیر
جرمنی میں کسی بھی شہری کے غیر ملکی شریک حیات کے لیے ویزے کے حصول کے سلسلے میں جرمن زبان سننے، بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں مہارت کی بنیادی سطح تک پہنچنا بھی ایک شرط ہے، جسے زبانوں کے لیے مشترکہ یورپی فریم ورک آف ریفرنس میں اے ون لیول کہا جاتا ہے۔ مورو ڈیوپ فرانسیسی اور وولوف زبانیں بولتے ہیں اور کئی سالوں سے بطور تاجر کام کر رہے ہیں۔ 2022ء کے اوائل میں انہوں نے اپنا کام روک دیا اور سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے زیر انتظام جرمن کورس میں حصہ لیتے ہوئے کئی مہینے گزارے۔
جعلی شادیوں کے خلاف جرمن اور ڈینش پولیس کی کارروائیاں
وینٹ نے، جو اب کام کرنے کے ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہی ہیں، اس لینگویج کورس، رہائش، تدریسی مواد، نجی اسباق، اور انٹرنیٹ کنکشن کے لیے فیس بھی ادا کی۔ دونوں ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے کھانے پر بھی کم رقم خرچ کرتے ہیں۔ وینٹ کے مطابق اپنے شریک حیات کو جرمن زبان سکھانے پر پہلے ہی ان کے چھ ہزار یورو خرچ ہو چکے ہیں۔
مورو ڈیوپ چودہ مہینوں سے جرمن زبان سیکھ رہے ہیں لیکن وہ اے ون ٹیسٹ میں تین بار فیل ہو چکے ہیں۔ ہر بار ان کے حاصل کردہ نمبر پہلے سے بہتر تو ہوتے ہیں لیکن وہ ابھی تک پاس ہونے کے لیے درکار 60 پوائنٹس تک نہیں پہنچے۔ ان کی اہلیہ کے مطابق جرمن زبان کا امتحان ان کے شوہر کے لیے انتہائی دباؤ والی صورتحال کی وجہ بن چکا ہے۔
ان کے والد بیمار ہیں، اور ڈیوپ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی کفالت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ایک چچا نے تو یہ کہتے ہوئے ڈیوپ کو اپنی سفید فام بیوی سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا کہ وہ صرف ان کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
لسانی امتحان میں ناکامی کی شرح زیادہ
گوئٹے انسٹیٹیوٹ اے ون لیول کے تقاضوں کو اس طرح بیان کرتا ہے: ''تحریری امتحان میں آپ روزمرہ کی مختصر گفتگو، نجی ٹیلی فون پیغامات یا لاؤڈ اسپیکر پر عوامی اعلانات سنیں گے اور ان سے متعلق مکمل مشقیں کریں گے.آپ سادہ فارم پُر کریں گے اور روزمرہ کی صورتحال کے بارے میں مختصر ذاتی مضمون تحریر کریں گے۔‘‘
جرمنی ميں مہاجرین کی جعلی شادیاں کرانے والا گروہ گرفتار
لیکن اگر کوئی جرمنی میں نہیں رہتا اور وہاں کی روزمرہ زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، تو اس کے لیے اس بارے میں سوالات کا جواب دینا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ 2021 ء میں سینیگال کےگوئٹے انسٹیٹیوٹ میں جرمن زبان کے A1 لیول کے امتحان میں تین چوتھائی شرکاء ناکام ہو گئے تھے، جو کہ جرمن زبان کا کُل 30 ممالک میں لیے گئے امتحانات میں سے بدترین نتیجہ تھا۔ 2022 ء میں ناکامی کی یہ شرح 50 فیصد سے بھی زیادہ تھی۔
''ہر سال دس ہزار سے زائد افراد بیرون ملک جرمن زبان کے مطلوبہ امتحانات پاس کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ جرمنی جا کر وہاں رہائش پذیر اپنے پارٹنرز کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں حزب اختلاف کی ایک جماعت لیفٹ پارٹی نے 2022 ء میں ایک مسودہ قانون بھی تجویز کیا تھا جس کے تحت کسی بھی شہری کے غیر ملکی شریک حیات کو جرمنی آنے کے بعد زبان کا ٹیسٹ دے کر اس لازمی شرط کو پورا کرنے کا موقع مل سکے۔
جرمن دفتر خارجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کچھ سالوں سے ہر سال شادی شدہ جوڑوں کے دوبارہ سماجی ملاپ کے لیے آٹھ سے دس ہزار تک کے درمیان ویزا درخواستیں مسترد ہوئیں یا واپس لے لی گئیں۔
دسمبر میں جرمن وزارت خارجہ نے قواعد میں نرمی کرتے ہوئے ہنرمند ملازمین کوچھوٹ دیتے ہوئے ان کے پارٹنر مردوں یا عورتوں کے لیے ویزا کو زبان کی شرط سے آزاد قرار دے دیا تھا۔
زبان کے تقاضوں میں تبدیلی کا مطالبہ
لِنڈا وینٹ نے اپنے تجربات کے بارے میں ''دو دنیاؤں کے درمیان‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس دوران انہوں نے جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے بیس سے زیادہ وفاقی پارلیمانی ارکان کو اپنی کہانی یوں سنائی: ''میں اور میرے شوہر دونوں اس کی وجہ سے بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ میں ہیں۔‘‘حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کے متعدد قانون سازوں نے جوابی طور پر اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، اس حوالے سے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا۔ تاہم وینٹ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''لیکن ابھی تک ہوا کچھ بھی نہیں۔‘‘
مستثنیات
اگر لِنڈا وینٹ یونان یا رومانیہ کی شہری ہوتیں یا اگر وہ برازیل، السلواڈور یا کوریا سے ہوتیں، تو وہ زبان کے اے ون لیول کے امتحان کے بغیر ہی اپنے شوہر کو اپنے پاس بلا سکتی تھیں۔
یورپی یونین کے رکن ممالک اور منتخب دیگر ممالک کے شہریوں کے جیون ساتھیوں کو پہلے سے ان کی جرمن زبان کی اہلیت ثابت کیے بغیر جرمنی میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ یہی بات تسلیم شدہ پناہ گزینوں، محققین، خود اپنا کوئی کام کرنے والوں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور حال ہی میں پیشہ ور ہنر مند افراد کے جیون ساتھیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے، چاہے ان میں سے کوئی بھی جرمن نہ بولتا ہو۔
خصوصی مشکلات والے معاملات
2012 ء میں جرمنی کی وفاقی انتظامی عدالت کے ججوں نے فیصلہ سنایا تھا کہ اپنے ساتھی کے ساتھ جرمنی میں داخل ہونے سے پہلے شریک حیات کی زبان کی اہلیت کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہونا چاہیے۔ ان ججوں کے مطابق، ''اگر کسی کی انفرادی طور پر زبان سیکھنے کی کوششیں ایک سال کے اندر نتیجہ خیز نہ ہو سکیں اور ناکام ہوجائیں‘‘ تو بیماری، معذوری یا زبان سیکھنے کے مواقع کی کمی جیسی وجوہات کے باعث ایسے افراد کی لسانی قابلیت متاثر ہو سکتی ہے۔
وکیل گیرہارڈ کے مطابق شادی شدہ جوڑے اکثر ایسے مشکل کیسز کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ڈیوپ چوتھی مرتبہ زبان کے امتحان کے لیے محنت سے پڑھائی کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ اس امتحان میں پاس نہیں بھی ہوتے، تو وہ خصوصی مشکلات سے متعلق قانونی شق کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے لیے ویزے کی درخواست دینا چاہتے ہیں۔ ڈاکار میں جرمن سفارت خانے کے ویزا اہلکار اور جرمنی میں امیگریشن حکام تب مل کر اس جوڑےکے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔
آندریا گرُوناؤ (ش ر ⁄ ک م)