جرمن اسلحہ برآمد کرنے کے متنازعہ معاہدے
17 دسمبر 2021جرمن نیوز میگزین ڈیئر اشپیگل میں اس ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انگیلا میرکل کے ماتحت سابق وفاقی حکومت نے مصر کے ساتھ اسلحے کے کئی متنازعہ معاہدوں کی منظوری دی تھی۔ اِن معاہدوں کی تفصیلات کے بارے میں تفصیل اُس وقت کے وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے موجودہ چانسلر اولاف شولس کی حلف برداری سے ایک روز قبل سات دسمبر کو وفاقی پارلیمان کی صدر بیربل باس کو ایک خط میں ارسال کی تھیں۔
متنازعہ معاہدوں کی تفصیلات
ہتھیاروں کے معاہدوں کی تفصیلات سے پتہ چلا ہے کہ مصر کو جرمن کمپنی تھیسن کرُپ کے تیارہ کردہ تین MEKO A-200 EN بحری جہاز ارسال کیے جائیں گے اور ڈیہل ڈیفینس نامی جرمن کمپنی 16 فضائی دفاعی نظام بھی فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ خط میں سنگاپور کے لیے تھیسن کرُپ کی تیار کردہ 218 G آبدوز کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
ان تینوں معاہدوں کی منظوری وفاقی سکیورٹی کونسل کی جانب سے دی گئی، جس میں چانسلر کے علاوہ دیگر وزراء، جیسے کہ وزیر خزانہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ اس وقت وزیر خزانہ کے عہدے پر موجودہ چانسلر اولاف شولس فائز تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شولس ان معاہدوں سے باخبر تھے۔
ہتھیاروں کے سودے تنقید کی زد میں
مصر کے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ اور یمن کی خانہ جنگی میں اس کے ملوث ہونے کی وجہ سے ہتھیاروں کے سودوں کے انکشاف نے بعض جرمن سیاسی رہنماؤں کی ناراضی کو جنم دیا ہے۔ جرمنی کی نئی مخلوط حکومت میں شریک گرین پارٹی کی رکن پارلیمان نے معاہدے پر تنقید کرتے کہا کہ سابق انتظامیہ نے 'آخری لمحات میں‘ ڈیل کی منظوری اس لیے دی، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ گرین پارٹی اس کی مخالفت کرے گی۔ ادھر جرمنی کی مسیحی برادری کی تنظیموں نے بھی ہتھیاروں کی برآمدات پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر کنٹرول کا مطالبہ کیا ہے۔
جرمن حکومت نے سن 2020 میں اسلحہ سازی کے لیے 5.2 ارب یورو میں 'نام نہاد‘ انفرادی برآمدی لائسنس جاری کیے تھے۔ اس میں نصف تعداد نیٹو اور یورپی یونین سے باہر دیگر ممالک کو ہتھیار سپلائے کرنے کے اجازت نامے ہیں۔
یورپی یونین سے باہر جرمن اسلحے کی برآمدات میں اضافہ
بین الاقوامی سکیورٹی امور کی ماہر سیمون وسوتزکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی یونین سے باہر 'نام نہاد تیسرے ممالک‘ کو اسلحہ فروخت کرنا ایک 'باقاعدہ طریقہ‘ بن گیا ہے، لہٰذا اب کسی مخصوص ملک کے بارے میں بات کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
دوسری جانب کیتھولک مسیحیوں کی تنظیم کے چیئرمین کارل یُسٹن کہتے ہیں کہ تقریباﹰ پورے یورپ سے ہی ان 'تیسرے ممالک‘ کو زیادہ تعداد میں ہتھیار برآمد کیے جارہے ہیں، خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو۔
جرمنی کی نئی سہ جماعتی مخلوط حکومت، جس میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، گرین اور فری ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں، نے 'ہتھیاروں کی برآمد پر کنٹرول کی پالیسی‘ کو نافذ کرنے پر اتفاق کیا ہے، خصوصاﹰ ان ممالک کے حوالے سے جو یمن کی جنگ میں ملوث ہیں۔ یُسٹن اس اعلان کا خیرم مقدم کرتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا نیا حکومتی اتحاد اپنے اس وعدے پر قائم رہ سکے گا یا نہیں۔
ویزلی ڈوکری، سبین کنکارٹس (ع آ / ع ح)