جرمنی: دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف ملک گیر مظاہرے
21 جنوری 2024
جرمنی کے 100 سے زیادہ شہروں اور قصبوں میں اس اختتام ہفتہ پر لاکھوں افراد دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
لاکھوں تارکین وطن اور اقلیتوں کو ملک بدر کرنے کے لیے دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) کے ایک خفیہ اجلاس میں بنائے گئے منصوبے کی تفصیلات نے ملک بھر میں جمہوریت کے حامی افراد کو سڑکوں پر نکل کر سراپا احتجاج بننے پر مجبور کر دیا۔
اس ویک اینڈ پر جرمنی بھر میں بہت بڑی بڑی ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد دیکھنے میں آیا۔
سب سے زیادہ مظاہرین کن کن شہروں میں سڑکوں پر نکلے؟
بندرگاہی شہر ہیمبرگ، فرینکفرٹ، ہینوور، کاسل، ڈورٹمنڈ، ووپرٹال، کارلسروہے، نیورنبرگ، ایئرفرٹ اور دیگر جرمن شہروں اور قصبوں میں ایک اندازے کے مطابق 300,000 لوگ سخت سردی اور منجمد درجہ حرارت کے باوجود دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور انتہائیدائیں بازو کی آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) پارٹی کے ایک خفیہ اجلاس میں بنائے گئے منصوبے کے خلاف مظاہروں کے لیے اکٹھے ہوئے۔
مظاہرین نے چند ایسے پلے کارڈز بھی اُٹھائے ہوئے تھے جن پرانتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی کے متبادل نام کے طور پر پارٹی کا نام ''فاشزم متبادل نہیں ہے۔‘‘ لکھا تھا۔
فرینکفرٹ اور ہینوور میں زبردست مظاہرے
جرمنیمیں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے جرائم کا نیا سالانہ ریکارڈ کے کمرشل اور مالیاتی حب کہلانے والے شہر فرینکفرٹ میں ہفتے کے روز تقریباً 35 ہزار مظاہرین نے ''ڈیفنڈ ڈیموکریسی‘‘ مارچ میں حصہ لیا۔ فرینکفرٹ کا مرکزی چوک مظاہرین سے بھرا ہوا تھا اور اس علاقے کی سڑکوں پر مظاہرین کی بہت بڑی تعداد جمع تھی تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرے پرامن رہے۔
فرینکفرٹ مظاہرے کے شریک منتظمین میں سے ایک پیٹر یوسیگر نے ایک بیان میں کہا ، ''پوٹسڈیم میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی پارٹی کی خفیہ میٹنگ میں ملک بدری کے جن منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا وہ ہماری بقائے باہمی کی بنیاد پر حملے سے کم نہیں۔‘‘ انہوں نے جرمن معاشرے سے مطالبہ کیا کہ وہ پوری وسعت و شدت سے اپنے جمہوری حقوق کی حفاظت کا موقف اختیار کرے۔
سابق صدر کا مظاہرین سے خطاب
ہینوور کے اوپرا اسکوائر پر تقریباً 35 ہزار مظاہرین موجود تھے جنہوں نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ''ہم متنوع ہیں ‘‘ اور '' اے ایف ڈی ووٹنگ 1933ء کی یاد دلا رہی ہے‘‘ کے نعرے درج تھے۔ اس اجتماع سے جرمنی کے سابق صدر کرسٹیان وولف اور صوبے لوئر سیکسنی کے وزیر اعلیٰ اشٹیفن وایل نے خطاب کیا۔
ہیمبرگ میں کیا ہوا؟
گزشتہ جمعے کو ہیمبرگ میں ایک بڑی ریلی کو روکنا پڑا کیونکہ توقع سے کہیں زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور اسے اپنی نوعیت کا اب تک کا سب سے بڑا احتجاج کہا گیا۔ پولیس کے مطابق وہاں 50 ہزار لوگ اکٹھے ہوئے جبکہ منتظمین نے مظاہرین کی تعداد 80 ہزار بتاتے ہوئے کہا کہ ریلی کو بہت سے لوگوں کے پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا۔
دیگر شہروں کا حال
جرمن پولیس نے دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ہجوم کی تعداد کچھ یوں بتائی۔ کاسل میں 12 ہزار، ڈورٹمنڈ اور ووپرٹال میں بالترتیب 7 ہزار، کارلسروہے میں 20 ہزار، نیورنبرگ میں کم از کم 10 ہزار، ہالے/زالے میں تقریباً 16ہزار، کوبلنز میں 5 ہزار اور ایئرفورٹ میں کئی ہزار کا مجمع اکٹھا ہوا۔
اتنی بڑی تعداد میں لوگ مظاہرے کیوں کر رہے ہیں؟
جرمنی بھر میں اتنے بڑے بڑے مظاہروں کا سبب دراصل ایک نیوز آؤٹ لیٹ کی طرف سے شائع ہونے والی وہ رپورٹ بنی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ جرمنی کے تاریخی شہر پوٹسڈام میں گزشتہ نومبر میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے اراکین نے میٹٹنگ کی۔ اس اجلاس میں انتہا پسندوں نے جرمنی کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کے ارکان سے بھی ملاقات کی۔ اس اجلاس کے شرکاء نے جرمنی میں "remigration" کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ اصطلاح دراصل دائیں بازو کے حلقوں کی طرف سے اکثر و بیشتر تارکین وطن، اقلیتوں یہاں تک کہ ان غیر ملکیوں کی 'بے دخلی‘ کے تناظر میں استعمال ہوتی ہے جو اپنی شہریت چھوڑ کر جرمن شہریت حاصل کر چُکے ہیں۔
دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور اے ایف ڈی کے ایک خفیہ اجلاس میں بنائے گئے منصوبے کے خلاف جرمنی کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج اتوار 21 جنوری کو دارالحکومت برلن، میونخ، کولون، ڈریسڈن، لائپزگ اور بون میں مزید مظاہرے ہو رہے ہیں۔
ک م/ا ب ا (روئٹرز، اے پی)