جرمن عدلیہ اور انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں میں تعلق
15 دسمبر 2022جرمنی میں مبینہ طور پر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے کے الزام میں گزشتہ ہفتے گرفتار کیے گئے انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ''رائش بُرگر‘‘ کے پچیس مشتبہ افراد میں ایک خاتون جج بھی شامل ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی وفاقی پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں سابق رکن برجیٹ مالسیک وِنک من کو مبینہ طور پر نئی حکومت میں وزیر انصاف کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
ایک قانون ساز کے طور پر اپنے دور میں ونک من نے امیگریشن کے خلاف بات کی اور انہوں نے اپنی پارلیمانی تقاریر میں پناہ گزینوں کو ''بیماریاں درآمد کرنے والے تارکین وطن‘‘ قرار دیا تھا۔ پھر 2021 ء میں دوبارہ منتخب ہونے میں ناکامی کے بعدبرجیٹ مالسیک وِنک من برلن میں عمارتوں کی تعمیر کے لیے ذمہ دار چیمبر میں ایک سول جج کے طور پر اپنی ملازمت پر واپس آ گئی تھیں۔
برلن کی شہری حکومت میں بائیں بازو کی پارٹی کی وزیر انصاف لینا کریک پناہ گزینوں کے بارے میں ونک من کے غلط بیانات پر انہیں ریٹائرمنٹ پر مجبور کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اعلیٰ انتظامی عدالت نے یہ کہتے ہوئے اس جج کے حق میں فیصلہ سنایا تھا کہ سوشل میڈیا پر ان کے کچھ بیانات سخت اور اشتعال انگیز ہوسکتے ہیں لیکن وہ یہ ثابت نہیں کرتے کے 58 سالہ سابق رکن پارلیمان عدلیہ میں کام کرنے کے لیے اہل نہیں ہیں۔
یونیورسٹی آف ہیمبرگ میں قانون کی پروفیسر ماریون البرز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''جج کو تادیبی اقدامات کا نشانہ بنانا یا انہیں ملازمت سے ہٹانا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ حکومت یا سیاست عام طور پر عدلیہ پر اثر انداز نہ ہو۔‘‘
پارلیمنٹ میں تقریروں کو آرٹیکل 46 کے تحت بنیادی قانون کے ذریعے تحفظ حاصل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی قانون ساز کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے انہیں عدالت میں ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ صرف استثنیٰ ہتک آمیز ذاتی توہین ہے۔
ایک بڑے مسئلے کی ابتدائی نشاندہی
لیکن مالسیک وِنک من عدلیہ کی ایسی پہلی رکن نہیں ہیں، جن کا انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ جرمن نظام انصاف میں ان کے فرائض سے متصادم ہو گیا ۔ ایے ایف ڈی کے قانون ساز اور پارٹی کے پارلیمانی ترجمان برائے قانونی امور تھامس سیٹز جنوب مغربی ریاست باڈن وورٹرم برگ سے تعلق رکھنے والے سابق پراسیکیوٹر ہیں۔
پرسیٹز نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر نسل پرستانہ بیانات شائع کیے تھے، جس کے جواب میں ان کی آبائی ریاست نے انہیں عدالتی خدمات سے برخاست کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے تبصروں سے آئین کے ساتھ ان کی وفاداری پر مشکوک ہوتی ہے۔ ایک عدالت نے وزارت انصاف کے اس استدلال کو تسلیم کیا تھا کہ سیٹز نے جو اصطلاحات اور تصاویر استعمال کی ہیں ان سے سیاسی اعتدال، غیر جانبداری اور آئین سے وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جو سرکاری ملازمین کے لیے لازمی ہے۔
اس ماہ کے شروع میں مشرقی ریاست سیکسنی سے تعلق رکھنے والے جج جینز مائیرکو قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر بھیج دیا گیا تھا۔ مائیر نے 2013 میں اے ایف ڈی میں شمولیت اختیار کی تھی اور پارٹی کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ ونک من کی طرح وہ بھی2017 ء اور 2021 ء کے درمیان بنڈس ٹاگ کے رکن تھے اور اپنی سیٹ کھونے کے بعد جج کے طور پر کام پر واپس آنا چاہتے تھے۔
ان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا حکم ایم پی بننے سے قبل ان کی ریلیوں میں کی گئی تقاریر اور ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پوسٹس تھیں، جو ان کی غیر جانبداری کو مشکوک بناتی تھیں۔ انہوں نے جرمن نازی پارٹی کی پالیسیوں کی تعریف کی تھی ۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اگر مشتبہ افراد ''اے ایف ڈی ججز‘‘ سے ڈرتے ہیں تو ''ہم نے سب کچھ ٹھیک کیا ہے۔‘‘ سیکسنی کی مقامی انٹیلی جنس میں مائیر کو انتہا پسندوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
جرمنی میں ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق
دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی اظہار اور رائے کی آزادی جرمن آئین میں ایک بنیاد کے طور پر شامل ہے۔ کسی بھی دوسرے شہری کی طرح ججوں کو اپنی رائے دینےکی آزادی ہے وہ کسی پارٹی کے رکن ہو سکتے ہیں اور وہ عوامی سطح پر سیاسی بیانات بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین میں درج بنیادی اقدار اور عقائد سے انحراف نہ کریں۔
تاہم ججوں کو اپنے سیاسی عقائد کو اپنے کام پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ایک جج کو بغیر کسی تعصب کے قانون کا اطلاق کرنا چاہیے اور وہ اس بات کا مجاز نہیں کہ اپنے سیاسی عقائد کی بنیاد پر قانون میں توڑ مروڑ کرے۔
یونیورسٹی آف کیسیل سے تعلق رکھنے والے ماہر انصاف اینڈریاس فشر لیسکانو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے نقطہ نظر سے برجٹ مالسیک وِنک من اور جینز مائیر جیسے کیسز برف کے تودے کا ایک سرہ ہیں۔ سرکاری اداروں میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا مسئلہ صرف پولیس اور فوج کے محکموں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اساتذہ اور ججوں سمیت عوامی خدمات کے تمام شعبوں کو متاثر کرتا ہے۔‘‘
سرکاری ملازمین کی اسکریننگ
جرمنی کے وفاقی نظام کی وجہ سے عدلیہ کے اراکین کی خدمات حاصل کرنے، جانچنے اور برطرف کرنے کے طریقہ کار ہر ریاست میں الگ الگ ہیں۔ مثال کے طور پر 2016 ء سے جنوبی ریاست باویریا عدلیہ کے لیے امیدواروں کی اسکریننگ کر رہی ہے۔ برانڈن برگ کی ریاست بھی اب اساتذہ اور ججوں سمیت سول سروس کے پیشوں کے لیے تمام درخواست دہندگان کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ آیا انہوں نے آئین مخالف مظاہروں میں حصہ لیا ہے، آیا انھوں نے آئین مخالف علامتیں ظاہر کی ہیں یا نفرت کو ہوا دی ہے، یا پرتشدد کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔
تاہم اینڈریاس فشر لیسکانو کے مطابق سخت اسکریننگ اس مسئلے سے چھٹکا رے کا حل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی جرمنی کے پہلے چانسلر نے بھی شدت پسند عناصر کو سرکاری عہدوں سے باہر رکھنے کے لیے اسی نوعیت کا ایک حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ستر کی دہائی میں بھی سرکاری ملازمین کی جانچ پڑتال کے لیے سخت پالیسی اپنائی گئی تھی۔ اس ماہر انصاف کے مطابق اصل کام قوانین کے اطلاق کے زریعے ایسے افراد کو سرکاری عہدوں سے ہٹانا ہے۔
اس سلسلے میں فشر جرمن زیر داخلہ نینیی فرئیزر کی اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ، جس کے تحت انہوں نے ججوں کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے قانون آسان بنانے پر زور دیا ہے۔
جرمن عدلیہ اور دائیں بازو کا تعلق
جرمنی کی عدلیہ کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھ مسائل زدہ روابط کی تاریخ رہی ہے۔ نازی پارٹی کے اعلیٰ عہدے پر فائز ارکان جنگ کے بعد مغربی جرمنی کی عدلیہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ 2016 میں جاری ہونے والی ایک حکومتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ جنگ کے بعد مغربی جرمنی کی پہلی وزارت انصاف کی نصف سے زیادہ قیادت نازی پارٹی کے سابق ارکان پر مشتمل تھی، جن میں درجنوں سابق نیم فوجی دستے ارکان بھی شامل تھے۔
اب سابق مغربی جرمنی کے قیام کے سات دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد حکومتی تختہ الٹنے کے الزام میں انتہا پسندوں کے خلاف چھاپوں نے ایک بار پھر جدید جرمنی کی عدلیہ میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
کیٹ بریڈی ( ش ر ⁄ ک م)