جرمنی کی ہتھیاروں کی برآمدات میں اضافہ
15 نومبر 2012اس ضمن میں سب سے زیادہ متنازعہ پہلو یہ ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت ایسے ممالک کو کی گئی جن کا شمار انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔
جرمنی کی وفاقی وزارت اقتصادیات نے گزشتہ روز ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق تازہ ترین رپورٹ جاری کی گئی ہے جس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ 2011ء میں اُس سے پہلے سال کے مقابلے میں جنگی ہتھیاروں کی برآمدات کم ہوئیں جن میں توپیں اور ٹینک وغیرہ شامل ہیں۔ تب بھی برآمد کیے جانے والے 42 فیصد ہتھیارنہ تو یورپی یونین اور نہ ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک کو فروخت کیے گئے بلکہ یہ ہتھیار متحدہ عرب امارات، سنگاپور، عراق اور الجزائر کو فروخت کیے گئے۔ جرمنی میں گزشتہ برس ہتھیاروں کی برآمد کے لیے زیادہ انفرادی لائسنس جاری کیے گئے۔ حقیقی معنوں میں ہتھیاروں کی برآمدات میں 660 ملین یورو یا 14 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جنگی ساز و سامان کے زمرے میں تمام عسکری اشیاء آتی ہیں۔ ان میں کیمو فلاژ ٹرک بھی شامل ہیں۔
ہتھیاروں کی برآمدات کے خلاف احتجاج
جرمنی کی ہتھیار ساز کمپنیوں پر یہ لازم ہے کہ جنگی ہتھیار یا فوجی ساز و سامان بیرون ملک فروخت کرنے کے لیے وہ وفاقی جرمن وزارت اقتصادیات سے اجازت نامہ حاصل کریں۔ وزارت اقتصادیات اجازت نامے کی درخواست کی جانچ پڑتال وزارت دفاع اور جزوی طور پر چند دیگر وزارتوں کے تعاون سے کرتی ہے، ایسی وزارتوں سے جو مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھتی ہیں۔
جرمنی کے ایک معروف تھنک ٹینکSWP سے منسلک ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق امور کے ماہر کرسٹیان موُلنگ کے بقول، سبز ممالک کا ایک گروپ ہے، یعنی ایسے ملکوں کا جہاں ہتھیاروں کی برآمد بغیر کسی مسئلے کے کی جا سکتی ہے۔ ان میں یورپی یونین اور نیٹو کے تمام ممبر ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو اسلحے کی فروخت سے منع کرنے کی صورت میں جرمن حکومت کو اس کی وضاحت اور جواز پیش کرنا ہو گا کیونکہ یہ ممالک جرمنی کے اتحادی یا پارٹنر ممالک ہیں اور یہ جرمنی سے عسکری امداد و تعاون کی امید رکھ سکتے ہیں۔
جرمن آبدوزیں
یہ تمام مراحل اُس وقت پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب ہتھیار بنانے والی کمپنیاں جنگی ہتھیار ایسے ممالک کو برآمد کرنا چاہتی ہیں جو یورپی یونین اور نیٹو کے ممبر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ٹینکوں کی سعودی عرب کو برآمد یا الجزائر کو جنگی کشتیاں فروخت کرنا یا پھر اسرائیل کو آبدوزوں کی برآمد۔ اس صورت میں فیصلہ جرمنی کی وفاقی سلامتی کونسل کرتی ہے جو کابینہ کی کمیٹی ہے اور اس میں جرمن چانسلر، نائب چانسلراور چانسلر دفتر کے چیف کے علاوہ وزارت خارجہ، داخلہ، انصاف، مالیات اور ترقیاتی امور کی وزارت شامل ہے۔ اس کمیٹی میں ہونے والی مشاورت اور تمام کارروائیوں اورفیصلوں کا پروٹوکول خفیہ ہوتا ہے۔ کیونکہ کرسٹیان موُلنگ کے بقول اسلحے کی فراہمی سلامتی کی سیاست کی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ہوتی ہے اور یہ پلاننگ ہتھیار وصول کرنے والے ممالک پر نظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے جن کے ہمسائے ملک بھی ان ہتھیاروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
Km/aa (dpa)