جرمن الیکشن، ووٹرز کون ہیں اور وہ کسے پسند کرتے ہیں؟
23 ستمبر 2017چوبیس ستمبر بروز اتوار جرمنی میں وفاقی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ تقریباﹰ 61.5 ملین ووٹرز اس انتخابی عمل میں شرکت کے اہل ہیں، جو یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اور اقتصادی پاور ہاؤس قرار دیے جانے والے ملک جرمنی کے مسقبل کا فیصلہ کریں گے۔
جرمن انتخابات: انتخابی مہم کا آخری روز
جرمن الیکشن سے قبل میرکل کی پارٹی کی مقبولیت میں کمی، جائزہ
پارلیمان میں پہنچنے کے لیے اے ایف ڈی کی مسلمان مخالف مہم
مہاجرین کے موجودہ بحران، بریگزٹ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’تنہائی پسندی‘ کی پالیسیوں کی وجہ سے جرمنی عالمی سیاست میں انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی نظریں اس وقت جرمن انتخابات پر گڑی ہوئی ہیں۔ آیے دیکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں مستقبل کی جرمن سیاست کا فیصلہ کرنے والے ووٹرز کون ہیں؟
جرمن ووٹرز کون ہیں؟
جرمنی میں زیادہ تر ووٹرز عمر رسیدہ ہیں، جو جرمنی میں جرمن والدین کے گھر ہی پیدا ہوئے۔ جرمن ووٹرز میں ستائیس اعشاریہ سات فیصد ووٹرز کی عمر 70 برس سے زیادہ ہے، جو عمر کے لحاظ سے مجموعی ووٹرز کا سب سے زیادہ حصہ بنتا ہے۔ اکتیس برس سے کم عمر والے ووٹرز کا تناسب صرف پندرہ فیصد بنتا ہے۔ جرمن وفاقی دفتر برائے شماریات کی طرف سے جاری کردہ ان اعدادوشمار کے مطابق سن 2017 کے جرمن انتخابات میں خواتین ووٹرز کا تناسب 51.5 فیصد ہے۔
جرمن ووٹرز میں تقریباﹰ 10.4 فیصد تارک وطن پس منظر کے حامل افراد ہیں۔ جرمنی میں تارکین وطن پس منظر کے حامل افراد کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ بطور جرمن شہری پیدا نہیں ہوئے تھے یا کم ازکم ان کے والدین میں سے ایک غیر جرمن تھا یا جرمنی میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان میں سے سب سے زیادہ تعداد پولش افراد کی ہے، جو تارک وطن پس منظر رکھنے والے مجموعی ووٹرز کا چودہ فیصد بنتی ہے۔
ترک نژاد جرمن ووٹرز کی تعداد 12.5 فیصد ہے جبکہ روسی نژاد جرمن ووٹرز کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔ اس کے بعد قزاقستان سے نقل مکانی کر کے جرمنی آنے والے افراد ہیں، جو اب جرمن شہری ہیں۔ چوبیس ستمبر کے انتخابی عمل میں ووٹ ڈالنے کے اہل ان جرمن شہریوں کی تعداد 10.6 فیصد بنتی ہے۔ اس کے بعد رومانیہ کا نمبر آتا ہے، جس کے باشندے اب جرمن شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسے ووٹرز کا تناسب 4.8 فیصد ہے۔
کون ووٹ نہیں ڈال سکتا؟
اٹھارہ سال سے زائد عمر کا تقریباﹰ ہر شہری جرمن وفاقی پارلیمان میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم اس تناظر میں کچھ شرائط بھی لاگو ہیں۔ جیسا کہ ہر ایسا بالغ ووٹ ڈالنے کا حق دار نہیں، جو کسی قانونی سرپرست کے ساتھ جرمنی میں مقیم ہے۔ لیبر منسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ الیکشن میں اکاسی ہزار ایسے افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ ان میں زیادہ تر ایسے بالغ تھے، جو ڈاؤن سینڈروم یا ایسے دیگر امراض کا شکار ہیں۔
اسی طرح شدید ذہنی بیمار جرمن شہریوں کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں ان افراد کی تعداد تین ہزار تین سو نوٹ کی گئی تھی۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں، جنہیں کسی جرم کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا۔ تاہم چھوٹی موٹی ذہنی بیماریوں کے حامل ووٹ ڈالنے کے اہل ہوتے ہیں۔
غیر ممالک میں آباد جرمن شہری عمومی طور پر ووٹ ڈال سکتے ہیں تاہم اس کے لیے انہیں قبل از وقت کاغذی کارروائی کرنا ہوتی ہے۔ طویل مدت سے بیرون ملک آباد ان شہریوں کو ہر الیکشن سے قبل اپنا ووٹ رجسٹر بھی کرانا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ جرمنی میں آباد دس ملین غیر ملکی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ وہ اب تک جرمن شہری نہیں ہیں۔
قدامت پسند ملکی سماجی نظام کو ختم کر سکتے ہیں، شلس
قدیم ترین جرمن سیاسی پارٹی ایس پی ڈی کے بارے میں اہم حقائق
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
ٹرن آؤٹ کی شرح
جرمنی میں عمر رسیدہ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ گزشتہ جرمن انتخابات میں ساٹھ تا ستر برس کے عمر کے ووٹرز کی طرف سے ووٹ ڈالنے کی شرح سب سے زیادہ نوٹ کی گئی تھی جبکہ اکیس تا تیس برس کے جرمن ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کافی کم رہا تھا۔
ناقدین کے مطابق عمر رسیدہ افراد کی انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی کا زیادہ فائدہ قدامت پسند سیاسی اتحاد کو ہوتا ہے۔ گزشتہ تین انتخابات میں زیادہ تر عمر رسیدہ ووٹرز نے انگیلا میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور باویریا میں کرسچن سوشل یونین کی ہی حمایت کی تھی۔ اسی لیے یہ سیاسی اتحاد دیگر سیاسی پارٹیوں پر سبقت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔
اسی طرح مشرقی جرمن صوبوں کے مقابلے میں مغربی جرمن صوبوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ گزشتہ جرمن انتخابات کے اعدادوشمار کے مطابق مرد اور خواتین دونوں گروپوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح یکساں رہی۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں 72.1 فیصد خواتین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا، جو مردوں کے ٹرن آؤٹ کے مقابلے میں صرف 0.6 فیصد ہی کم تھا۔