جرمن سکولوں میں ملکی نوآبادیاتی تاریخ کیوں نہیں پڑھائی جاتی
7 اگست 2021انفارمیشن شیٹ میں ہینڈرک وٹبوئی کو ان کے ملک نمیبیا کے 200 ڈالر کے نوٹ پر دکھایا گیا ہے۔ ہائی اسکول کے طلبہ پڑھتے بھی ہیں کہ وٹبوئی نے 19 ویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں نمیبیا پر جرمن قبضے کے خلاف جنگ لڑی تھی۔
جرمنی نے اپنی نو آبادیاتی افواج کے ذریعہ ہیریرو اور ناما کے عوام کی 'نسل کشی‘ کی تھی۔ اس وقت یورپی ممالک اس خطے کو جرمن ساؤتھ ویسٹ افریقہ کہا کرتے تھے اور اب اسے نمیبیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نمیبیا میں تو آج بھی وٹبوئی کو جرمن نوآبادیات سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ کرنے والے ایک ہیرو کے طور پر عزت حاصل ہے۔ لیکن جرمنی میں طلبہ کو شاید ہی وٹبوئی کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔
وٹبوئی کے بارے میں انفارمیشن شیٹ افریقہ سے متعلق ایک جرمن ایسوسی ایشن نے اس امید کے ساتھ تیار کی تھی کہ جن اساتذہ کو اس میں دلچسپی ہو گی وہ اسے اپنی کلاس میں بھی استعمال کریں گے، تاہم یہ جرمن اسکولوں میں سرکاری تدریسی مواد کا باضابطہ حصہ نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ، اس وقت، جرمن سرکاری اسکولوں کی نصابی کتابوں اور اس کے دیگر نصاب میں افریقہ اور مغربی بحر الکاہل میں جرمن نوآبادیات سے متعلق 30 سالہ طویل تاریخ کو تقریبا مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
جرمن نوآبادیات کے موضوع پر بعض جرمن ریاستوں میں تو بالکل کچھ بھی نہیں پڑھایا جاتا ہے اور صرف دو ریاستوں میں اسے صرف سرسری طور پر ہی پڑھایا جاتا ہے۔
اصلاحات کا مطالبہ
جرمن شہر کلون سے تعلق رکھنے والی ابیگائل فوگاہ نے اسی لیے اسکولی نصاب میں تبدیلی کے لیے ایک مہم شروع کی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’نصابی کتب اور نصاب پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اب تک تقریبا 95 ہزار افراد نے اس کی حمایت میں دستخط بھی کر دیے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’فی الوقت جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے وہ کافی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے اسکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کے اساتذہ نسل پرستی اور جرمنی کی نوآبادیاتی تاریخ کے بارے میں بہت کم ہی بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’میرے والدین کا تعلق گھانا سے ہے اور (اسی وجہ سے) اسکول میں میری زندگی آسان نہیں تھی۔‘‘
سن 1884 سے 1916 تک جرمن نوآبادیاتی عہدیدار افریقہ کے مغرب میں، ان علاقوں کے بھی انچارج تھے جس میں آج کے جمہوریہ ٹوگو اور گھانا کے بھی بعض حصے شامل ہیں۔ اس وقت اسے علاقے کو ’ٹوگو لینڈ‘ کہا جاتا تھا جسے جرمن سلطنت ایک ’ماڈل کالونی‘ قرار دیتی تھی۔ لیکن یہاں بھی جرمنوں نے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا اور انہیں مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔
فوگاہ کا خیال ہے کہ جرمنی میں موجودہ نسل پرستی کو تبھی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جب لوگ اس نوآبادیاتی تاریخ کے بارے میں جانیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر سیاہ فام بچے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ نسل پرستی کا سامنا کریں تو سفید فام بچوں کی بھی اتنی عمر ہوتی ہے کہ وہ نسل پرستی کے بارے میں کچھ سیکھ سکیں۔‘‘
اساتذہ کی جانب سے نکتہ چینی بھی اور حمایت بھی
فوگاہ کہتی ہے کہ انہیں اس مہم میں اب تک ملے جلے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’اس پر تنقید کرنے والوں میں زیادہ تر اساتذہ ہیں۔ وہ ہم پر اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں کہ نوآبادیاتی تاریخ پہلے ہی نصاب کا حصہ ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ اس موضوع کو پڑھانا لازمی نہیں ہے۔‘‘
ہولوکاسٹ میں 60 لاکھ یہودیوں کا قتل، دوسری عالمی جنگ، سرد جنگ اور جرمنی کی تقسیم سمیت جرمن تاریخ کی کلاسوں میں تمام اہم موضوعات شامل ہیں، تاہم دیگر موضوعات کے لیے وقت کم بچتا ہے۔
اس کے لیے اساتذہ کو وقت نکالنے کی ضرورت ہے جیسے کی ہیمبرگ میں اسکول کی ایک استانی اِمکے سٹالمان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم تقریبا پندرہ برسوں سے طلبہ کے ساتھ ان کے آخری سال میں نوآبادیاتی تاریخ پر کافی توجہ دیتے آئے ہیں۔ نوآبادیاتی تاریخ ایک اہم موضوع ہے جو موجودہ بہت سے مسائل سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
اِمکے سٹالمان نے اپنے طلبہ کو ہیمبرگ میں واقع جرمنی اور مشرقی افریقہ کے درمیان جنگ کا میموریل دکھایا، جہاں نازی دور میں جرمنی کی نوآبادیاتی تاریخ کا جشن بھی منایا جاتا تھا۔
فوگاہ اور ان جیسے دوسرے کارکنان کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ شاید تمام اسکول اس طرح کی سرگرمیاں ممکن نہ ہو سکیں تاہم وہ پر امید ہیں کہ جرمنی میں طلبہ کو کم سے کم نوآبادیاتی دور کی تاریخ اور اس کے ورثے کے بارے میں جاننے کا موقع مل سکے گا اور پھر نوجوان نسل موجودہ دور کی نسل پرستی اور اس کی وجوہات کو مزید بہتر طور پر سمجھ سکے گی۔
نسل کشی کی تاریخ
سن 1884سے 1915کے درمیان اس وقت کے جنوب مغربی افریقہ پر جرمن بادشاہت کی حکومت تھی۔ اس دور میں جرمنی کی فوج نے متعدد بغاوتوں کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا تھا جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔
انتہائی بے رحمی کے لیے مشہور اس وقت کے جرمن جنرل لوتھر وان تروتھاکوسن 1904 میں بغاوت کو کچلنے کے لیے ہیریرو بھیجا گیا تھا۔
مورخین کا کہنا ہے اس وقت ہیریرو کی آبادی 65 ہزار سے 80 ہزار کے درمیان تھی اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس ہزار تا بیس ہزار لوگ قتل کردیے گئے تھے۔
جرمنی نے اسی برس مئی کے مہینے میں اپنی نو آبادیاتی افواج کے ذریعہ ہیریرو اور ناما کے عوام کی 'نسل کشی‘ کے جرائم کا باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا۔
پیٹر ہیلے (ص ز/ ش ح)