1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

نمیبیا نسل کشی معاملہ:  قبائل نے جرمنی کی معذرت مسترد کر دی

1 جون 2021

نمیبیا کے ہیریرو اور ناما افراد کی نمائندگی کرنے والی تنظیم، سرداروں کی کونسل، نے جرمنی کی نو آبادیاتی حکومت کے دور میں نسل کشی کے لیے معافی کے طور پر انفرااسٹرکچر پروجیکٹو ں کے لیے مالی امداد کی پیشکش مسترد کر دی۔

https://p.dw.com/p/3uFZV
Deutschland | Namibia | Aussöhnungsabkommen | Proteste in Windhoek
تصویر: Sonja Smith/AP Photo/picture alliance

قبائلی رہنماوں کے ایک گروپ نے نمیبیا میں پیر کے روز جرمنی کی طرف سے اس مجوزہ پیش کش کو مسترد کردیا جس میں جرمنی نے تسلیم کیا تھا کہ نو آبادیاتی قبضے کے دوران قتل کے واقعات نسل کشی کے مترادف تھے اور اس کے لیے زرتلافی کے طورپر 1.34ارب ڈالر کی مالی امداد دینے کی پیش کش کی تھی۔

جرمنوں نے اس نوآبادی پر سن 1904سے 1908 کے درمیان برلن حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے ہیریرواور ناما قبائل کے ہزارو ں افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اس علاقے کواس وقت جرمن جنوب مغربی افریقہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

جرمن حکومت نے گزشتہ ہفتے با ضابطہ طورپر تسلیم کیا تھا کہ وہاں نسل کشی ہوئی تھی اور اسے اگلے تیس برسوں کے دوران 1.34 ارب ڈالر کی مالی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس رقم کا استعمال مالیاتی انفراسٹرکچر، صحت کی دیکھ بھال اور تربیتی پروجیکٹوں کے لیے کیا جائے گا۔

تاہم قبائلی سرداروں کی کونسل نے پیر کے روز ایک بیان جاری کرکے اس رقم کو 'توہین آمیز‘  اور ’نا قابل قبول‘ اورپیش کش کو ’اپنے وجود کے لیے ہتک‘ قرار دیا۔

گروپ نے نمیبیا کی حکومت سے کہا کہ وہ اس معاملے پر از سرنو بات چیت کرے کیونکہ مذکورہ رقم کا زرتلافی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

Deutschland | Namibia | Aussöhnungsabkommen | Proteste in Berlin
تصویر: Paul Zinken/dpa//picture alliance

جرمن وزیر خارجہ کی طرف سے جمعے کے روز مجوزہ معاہدے کے اعلان کے بعد نمیبیا کے دارالحکومت ونڈہوک میں بعض قبائلی رہنماوں نے جرمن سفارت خانے کے باہر مظاہرے کیے۔ اسی طرح کا ایک مظاہرہ پیر کے روز برلن میں بھی ہوا۔

نمیبیا کی حکومت نے تاہم قبائلی سرداروں کے ردعمل پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

اہم مذاکرات کار زیڈ نجیویرو نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کونسل بات چیت کے تمام مراحل میں شامل رہی تھی۔”میں سمجھتا ہوں کہ جرمنی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس ملک میں اختلافات موجود ہیں۔" انہوں نے مزید کہا”ونڈہوک اب اس بات کا تجزیہ کر رہا ہے کہ قبائلی رہنماوں کے بیانات کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔“

Deutschland | Namibia | Aussöhnungsabkommen | Bundesaußenminister Heiko Maas
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماستصویر: Tobias Schwarz/AP Photo/picture alliance

جرمنی اور نمیبیا کی حکومتوں کا کیا کہنا ہے؟

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعے کے روز کہا تھا کہ پانچ برسوں سے زیادہ عرصے تک چلنے والی بات چیت کے بعد جرمنی”موجودہ حالات کے پس منظر میں نو آبادتی دور میں ہونے والے واقعات کو سرکاری طور پر 'نسل کشی‘ تسلیم کرتا ہے۔  ان کا کہنا تھا”جرمنی کی تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری کی روشنی میں ہم نمیبیا اور متاثرین کے وارثین سے معافی کی درخواست کریں گے۔“

 ہائیکو ماس نے بتایا تھا کہ  1.34 ارب ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا جائے گا اور متاثرہ کمیونٹیز یہ فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی کہ اس رقم کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ جرمن وزارت خارجہ نے واضح کیا تھا کہ قانونی دعووں کو نمٹانے پر آنے والے اخراجات اس فنڈ میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔

نمیبیا کے صدر کے ترجمان حامی گنجوب نے جرمن حکومت کے فیصلے  کو'درست سمت میں مناسب قدم‘ قرار دیا ہے۔

Überlebende Herero nach der Flucht durch die Wüste
تصویر: public domain

جرمنی نے نمیبیا میں کیا کیا تھا؟

جرمنی نے سن 1884میں نمیبیا پر قبضہ کرلیا تھا اور پہلی عالمی جنگ کے دوران 1915میں شکست سے قبل تک یہ علاقہ اسی کے پاس تھا۔

جرمنوں نے وہاں اپنی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا اور ہیریرو اور ناما کے ہزاروں افراد کا قتل کردیا۔

برلن نے بغاوت کو کچلنے کے لیے لوتھر وان تروتھا نامی ایک جرمن جرنیل کو وہاں بھیجا جس نے لوگوں کا قلع قمع کر دینے کا حکم دیا۔ اس کے فوجیوں نے مردوں، عورتوں اور بچوں کو ان کے گھروں سے نکال نکال کر تعذیبی کیمپوں میں ڈال دیا۔ بہت سے لوگوں سے غلاموں کی طرح خدمت لی گئیں جب کہ ہزاروں دیگر پیاس، بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

گوکہ جرمنی نے ماضی میں ان ہلاکتوں کے لیے اپنی ”اخلاقی ذمہ داریوں" کا اعتراف کیا تھا لیکن جرمن حکام  زرتلافی ادا کرنے سے بچنے کے لیے ایک عرصے تک باضابطہ معذرت کرنے سے گریز کرتے رہے۔

جرمن حکام کے اس رویے کی وجہ سے بہت سارے مورخین نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والے قتل کے ان واقعات کو ”فراموش کردہ نسل کشی" قرار دیا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے مغربی افریقی ملک کے ساتھ تعلقات میں دہائیوں تک تلخی رہی تھی۔

 ج ا/  ص ز  (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں