جرمن صدر یوآخم گاؤک کی دوبارہ صدر بننے سے معذرت
6 جون 2016چھ جون کو جرمن دارالحکومت برلن میں اپنے صدارتی محل بیلے وُو میں صحافیوں کے سامنے اپنے بیان میں گاؤک نے کہا: ’’مجھے اٹھارہ مارچ 2012ء کو جرمنی کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔ اس بات کو تقریباً چار برس بیت چکے ہیں۔ تب سے میں نے احترام اور مسرت کے ساتھ اس عہدے کو نبھایا ہے اور سترہ مارچ 2017ء تک نبھاتا رہوں گا۔ میری ذات پر جو اعتماد کیا گیا ہے، اُس پر پورا اترنے کے لیے میں آئندہ مہینوں میں خوشی کے ساتھ اپنی ذمے داریاں نبھاؤں گا۔‘‘
گاؤک نے مزید کہا: ’’آج لیکن مَیں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے دوسری مرتبہ اس عہدے کے لیے امیدوار نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا کیونکہ سربراہِ مملکت کی حیثیت سے اپنے وطن کی خدمت کرنا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔‘‘
گاؤک کے مطابق اُنہوں نے یہ فیصلہ اپنی بڑھتی عمر کی وجہ سے کیا ہے کیوں کہ: ’’ستتر اور بیاسی کے درمیان عمر کے سال اُس عمر سے مختلف ہوتے ہیں، جس میں مَیں اس وقت ہوں۔‘‘
جرمنی میں سربراہِ مملکت کا عہدہ بڑی حد تک رسمی اور علامتی نوعیت کا ہوتا ہے اور اس عہدے پر فائز شخصیت کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہوتے لیکن اس عہدے کو ایک بڑی اخلاقی اتھارٹی ضرور مانا جاتا ہے۔
ایک سال قبل گاؤک نے اپنے ایک خطاب میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو ’نسل کُشی‘ قرار دیا تھا۔ یہ چیز جرمن حکومت کی پالیسیوں میں ایک بڑی تبدیلی کی عکاس تھی کیونکہ جرمن حکام یہ اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کرتے تھے۔ گاؤک کے اس خطاب کی باز گشت گزشتہ ہفتے پھر سنائی دی، جب جرمن پارلیمان نے باقاعدہ وہ قرارداد منظور کر لی، جس میں پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں پندرہ لاکھ آرمینیائی مسیحیوں کے قتلِ عام کو ’نسل کُشی‘ قرار دیا گیا تھا۔
2013ء میں مفاہمت کی ایک علامت کے طور پر گاؤک پہلے جرمن رہنما کے طور پر فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ سے فرانس میں اُس مقام پر جا کر ملے تھے، جہاں دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی نازی سوشلسٹ فوج نے شہریوں کا قتلِ عام کیا تھا۔
یوآخم گاؤک نے اسلام مخالف اور مہاجر دشمن عوامیت پسند گروپوں کی بڑھتی مقبولیت کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔ گاؤک کے مطابق جرمن یہ بات یاد رکھیں کہ کبھی انہوں نے بھی جنگ اور تعاقب سے فرار ہو کر دوسرے ملکوں کا رخ کیا تھا۔
نئے صدر کا انتخاب آئندہ سال فروری میں عمل میں آئے گا۔