جرمن پارليمنٹ کے رکن فلوگ کا پاکستان کے حوالے سے انٹرويو
5 اپریل 2011جرمنی کی وفاقی پارليمان کے رکن اور سوشل ڈيمو کريٹک پارٹی کے رکن يوہانس فلُوگ کا پاکستان کے حالات کے بارے ميں انٹرويو
ڈوئچے ويلے: حاليہ بحرانوں کے حوالے سے جرمنی کو پاکستان سے کيا توقع ہے؟
يوہانس فلوگ: ہميں پاکستانی حکومت سے توقع ہے کہ وہ اچھی حکومت کا انتظام کرے، کرپشن کے خلاف جنگ کرے، ٹيکس وصول کرنے کا ايک درست اور مؤثر نظام نافذ کرے اور اچھا سرکاری نظام تعليم قائم کرے۔ ہم يہ بھی چاہتے ہيں کہ پاکستان اپنے ہمسايہ ملک بھارت کے ساتھ امن سے رہے۔اس کا اطلاق صرف پاکستان ہی پر نہيں بلکہ بھارت پر بھی ہوتا ہے۔ ہم خاص طور پر يہ چاہتے ہيں کہ فوج اور خفيہ اداروں پر سياست کا کنٹرول ہو۔ ميرے خيال ميں يہ بنيادی پيشگی شرائط ہيں۔
ڈوئچے ويلے: جرمنی ان حالات کو پيدا کرنے ميں کيا مدد دے سکتا ہے؟
يوہانس فلوگ: جرمنی ايک مؤثر اور کارگر نظام تعليم قائم کرنے ميں مدد دے سکتا ہے۔ جرمنی بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے ميں بھی مدد دے سکتا ہے۔ ميرے خيال ميں پاکستان کو اتنی زيادہ ايٹمی توانائی کے بجائے بجلی پيدا کرنے کے قدرتی يا قابل تجديد ذرائع استعمال کرنے چاہیيں۔ اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان دونوں کو اسلحے ميں کمی کرنا چاہيے۔ انہيں ايٹمی اسلحے کے عدم پھيلاؤ اور تخفيف کے معاہدوں کو تسليم کرنا چاہيے اور آپس ميں اعتماد پيدا کرنے کے اقدامات کرنے چاہیيں۔ اس کے بعد شايد جرمنی نہيں بلکہ يورپ چين سے يہ بات چيت کر سکتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان ميں معيشی ڈھانچے کی تعمير کے لئے يورپ کے ساتھ ايک اہم رفاقت قائم کر لے۔
ڈوئچے ويلے: کيا پاکستانی حکومت ملک ميں مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے کافی اقدامات کر رہی ہے؟
يوہانس فلوگ: نہيں، وہ ايسا نہيں کر رہی ہے۔ پنجاب کے گورنر اور اقليتی امور کے وزير کا قتل يہ ظاہر کرتا ہے کہ ان قاتلانہ حملوں کو عام حمايت حاصل ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے ميں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ميرے خيال ميں انہيں مدرسوں کی بھی بہتر طور پر نگرانی کرنا چاہيے۔ مجھے نہيں معلوم کہ کيا انہيں اسکولوں کے عمومی نظام ميں شامل کيا جا سکتا ہے يا نہيں۔ ميں اس پر کوئی فيصلہ يا رائے زنی نہيں کرنا چاہتا۔ ليکن يہ صحيح ہے کہ پاکستان ميں انتہا پسندوں کو اليکشن ميں صرف چھ يا سات فيصد ووٹ ملتے ہيں۔ خطرے کی بات يہ ہے کہ انتہاپسندوں کو قدم جمانے ميں کاميابی ہوئی ہے اور وہ معاشرے کے دوسرے طبقات کے اثر ميں کمی کرنے میں کامیاب ہوئے ہيں۔ انہيں اعلٰی ترين فوجی افسران تک کو متاثر کر لينے ميں کاميابی ہوئی ہے۔ اس کے بغير وہ کوئی ايک سال قبل راولپنڈی کی فوجی بيرکوں پر قبضہ کرنے ميں کامياب نہيں ہو سکتے تھے۔ ايسا صرف اندرونی مدد ہی کے ذريعے ممکن ہے۔
ڈوئچے ويلے: کيا اس کا مطلب يہ ہے کہ پاکستانی حکومت کو فوج پر کنٹرول حاصل کر لينا چاہيے؟
يوہانس فلوگ: يقيناً، اور يہ ممکن بھی ہے۔ ہم ترکی ميں اس کا مشاہدہ کر چکے ہيں۔ ترک وزير اعظم ايردوآن نے اس سلسلے ميں بہت محنت کی ہے۔ شروع ميں يہ آسان نہيں تھا اور بعض مشکلات بہت شديد قسم کی تھيں ليکن ايسا معلوم ہوتا ہے کہ ايردوآن اس دوران اپنا ہدف حاصل کر چکے ہيں۔
ڈوئچے ويلے: کيا پاکستان آپ کے خيال ميں ايک ناکام رياست ہے؟
يوہانس فلوگ: نہيں، پاکستان ايک ناکام رياست نہيں ہے۔ آپ کو پاکستان کی تاريخ ديکھنا ہو گی، جس ميں فوجی سے سول حکومت تک کی بہت سی تبديلياں ملتی ہيں۔ لوگ بار بار يہ کہتے ہيں کہ پاکستان ايک ناکام رياست ہے ليکن يہ صحيح نہيں ہے۔ اس وقت پاکستان ميں ايک سويلين حکومت ہے، جس کی کارکردگی اتنی اچھی نہيں ہے ليکن وہ چل رہی ہے۔ ہم يقيناً وہ حالات بھی ديکھيں گے، جب اپوزيشن حکومت سنبھال لے گی يا اسی قسم کی صورتحال۔ اس لئے ميرے خيال ميں يقيناً پاکستان کا ايک مستقبل ہے۔
انٹرويو: گراہم لوکاس۔ترجمہ: شہاب احمد صديقی ادارت: امجد علی