جرمن کابینہ نے امیگریشن قوانین کی منظوری دے دی
19 دسمبر 2018ابتدائی طور پر وفاقی مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں ان مسودوں میں درج تفصیلات پر منقسم رائے رکھتی تھیں۔ تاہم منگل کو یونین جماعتوں اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے مابین امیگریشن کے حوالے سے نئے قوانین کے مسودوں پر اتفاق رائے ہو گیا۔
اب جرمن کابینہ نے بھی انہیں منظور کر لیا ہے۔ ان مسودوں یعنی ماہرین کے لیے مجوزہ امیگریشن قوانین میں یورپ سے باہر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور اور ہنر مند افراد کے لیے مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ غیر ملکی پیشہ ور افراد جرمنی کا رخ کریں۔
اس سے قبل جرمنی میں امیگریشن سے متعلق پالیسیوں میں صرف تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد یعنی پروفیشنلز پر ہی توجہ دی گئی تھی۔ اس پیش رفت سے ’امپلائمنٹ ٹولیریشن‘ قانون ایک طرح سے ختم ہو گیا ہے۔
اس طرح اب ایسے عبوری رہائشی اجازت ناموں کے حامل تارکین وطن کو بھی کم از کم تیس ماہ کا ویزا دیا جائے گا، جو برسر روزگار ہوں، حکومت پر مالیاتی حوالے سے بوجھ نہ ہوں اور معاشرے میں ضم ہو چکے ہوں۔ اس کے لیے ایک شرط رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی تارک وطن کم از کم اٹھارہ ماہ سے قانونی طور پر برسر روزگار ہو۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مطابق اپنی خوشحالی کے تحفظ اور اس کے معیار کو برقرار رکھنے کی خاطر جرمنی کو غیر ملکی ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول اس مقصد کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنے کا یہ انتہائی موزوں وقت ہے۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر محنت ہوبرٹس ہائل کے مطابق، ’’بیس سال کے بحث و مباحثے کے بعد جرمنی ایک جدید امیگریشن قانون اپنانے جا رہا ہے۔‘‘
دوسری جانب جرمن ٹریڈ یونینوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اگر وسیع تر مخلوط حکومت نے اس مسودے پر نظرثانی نہ کی، تو اس کا مطلب سماجی انضمام کے ایک موقع کو ضائع کرنا ہو گا۔ مزید یہ کہ اب تک کی دستاویزی پیش رفت تنخواہوں میں کمی اور استحصال کی وجہ ہی بنی ہے۔