1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل باجوہ کا دورہ سعودی عرب

5 مئی 2021

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے پہلے ملک کی طاقتور فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اس عرب ملک کا دورہ کررہے ہیں، اس حوالے سے ملک کےکئی حلقوں میں بحث چل رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3t02L
Pakistan Qamar Javed Bajwa
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Yousuf

 

آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل باجوہ منگل کو سعودی عرب کے سرکاری دورے پر پہنچے۔ وزیر اعظم عمران خان کے جمعہ کو سعودی عرب جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ جنرل باجوہ نے اس سے پہلے گزشتہ برس اگست میں سعودی عرب کا دروہ کیا تھا، جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک سخت بیان کے بعد پیدا ہونے والی تلخی کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ کچھ مبصرین اسے ایران اور سعودی عرب تعلقات کی بہتری کی روشنی میں اہم قرار دے رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں دورے کا مقصد مالیاتی امور  پر سعودی حکام سے بات چیت کرنا ہے۔ کچھ ناقدین ایسے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ فوجی سربراہ کو ایسا کوئی دورہ  نہیں کرنا ہی نہیں چاہیے، جو سفارت کاری سے متعلق ہو۔ 

ایران نے سعودی ولی عہد کے بیان کا خیرمقدم کیا

دورہ خوش آئند ہے

پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی طرف سے مثبت اشارے دیے گئے ہیں۔ کچھ ماہرین اس تناظر میں  جنرل باجوہ کے دورے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

Saudi-Arabien General Qamar Javed Bajwa, Chief of Army staff (COAS)
جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف اوقات میں سعودی حکام سے ملتے رہے ہیں۔ تصویر: ISPR

پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار اور بہتر رہے ہیں اور یہ کبھی خراب نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کی وجہ صرف مذہب نہیں بلکہ سکیورٹی معاملات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے لیکن یہ خرابی کی حد تک نہیں گئے ہیں۔ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہورہا ہے جس وقت ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اس لحاظ سے یہ دورہ بہت خوش آئند ہے۔‘‘

عسکری ڈپلومیسی، جنرل باجوہ سعودی عرب کو کیسے سمجھائیں گے؟

 

اسٹیبلشمنٹ تلخی نہیں چاہتی

معروف مصنف اور دفاعی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ سعودی عرب سے تعلقات کے حوالے سے معاملہ عمران خان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑنا چاہتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی پیشکش کر کے اور شاہی آداب و اطوار کو نظر انداز کرکے ریاض کو ناراض کیا تھا اور بالکل اسی طرح ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ قربت بڑھانے کا تاثر دیا تھا، جس کا شاہوں نے بہت برا منایا تھا۔ اب اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ کچھ اس طرح کی تلخی ہو کیونکہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات ایک نئے انداز میں استوار ہو رہے ہیں اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ سعودی عرب یمن کے مسئلے کو حل کرے اور جنگ میں اپنے کردار کو ختم کرے۔‘‘وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اب تک نہیں ہیں

 

Mohammad bin Salman in Pakistan Imran Khan
وزیر اعظم پاکستان سعودی عرب کو اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔ تصویر: Reuters

معاشی اور سلامتی  پہلو

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وجہ سے سعودی عرب کو اپنی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔''کیوں کہ ہم سکیورٹی کے حوالے سےسعودی عرب کو اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں اس لیے ممکنہ طور پر یہ بھی ایک محرک ہے۔ لیکن اس دورے کا مقصد معاشی بھی ہوسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں یہ رعایت مل جائے کہ ہم تیل کی قیمت کی ادائیگی تاخیر سے کریں یا ہمیں کوئی اور مالی مراعات مل جائیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں پاکستان نہیں چاہتا کہ بھارت سعودی عرب کی سلامتی کے لیے پاکستان کے متبادل کے طور پر ابھرے۔‘‘

سعودی ایرانی تنازعے میں پاکستانی ثالثی کامیاب لیکن سست رفتار

سفارت کاری میں مداخلت مثبت نہیں

کئی ناقدین پاکستان کے خارجہ امور میں فوج کی مداخلت کو مثبت نہیں سمجھتے۔ کچھ مبصرین یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر سفارتکاری دفتر خارجہ کے علاوہ کسی اور ادارے نے کرنی ہے تو پھر وزیر خارجہ کی کیا ضرورت ہے اور پھر دفترخارجہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ یہ بات عجیب ہے کہ اس دورے کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ دورہ کس لیے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، '' سفارت کاری ایک ہنر ہے جس کے لیے سفارت کار کو انتہائی تجربہ کار ہونا چاہیے لیکن جنرل باجوہ صاحب کو سفارت کاری کا کوئی تجربہ نہیں تو میرے خیال میں ان کو یہ دورہ بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر اسکا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات بہتر کرنا ہے، تو پھر وزیر خارجہ کو سعودی عرب جانا چاہیے تھا اور اگر یہ دورہ دفاعی امور سے متعلق ہے تو وزیر دفاع کو وہاں جانا چاہیے تھا۔‘‘

پاکستانی فوج کے سربراہ تعلقات بحال کرنے کے لیے سعودی عرب کے دورے پر

Saudische Luftangriffe im Jemen
نئی امریکی حکومت یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے کردار پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تصویر: AFP

انہوں نے مزیدکہا  کہ کچھ ریاستیں ایسا بھی کرتی ہیں کہ جب وہ دیکھتی ہیں کہ ان کے سامنے والا سفارتکاری سے نا بلد ہے تو وہ اپنے سامنے والے کی ناتجربہ کاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کے بقول،''جنرل باجوہ کی مہارت عسکری امور میں ہے تو انہیں ان ہی امور تک محدود رہنا چاہیے۔‘‘  

پارلیمنٹ دورے پر بحث کرے

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جنرل باجوہ یہ دورہ کر ہی رہے ہیں تو پھر یہ بات پارلیمنٹ کے سامنے آنی چاہیے۔ ''پارلیمنٹ کو اس بات پر بحث کرنا چاہیے کہ اس دورے کا مقصد کیا ہے؟ سعودی عرب میں کن امور پر بات چیت ہوئی؟ ان امور کی کیا تفصیلات ہیں؟ وزیر خارجہ نے یہ دورہ کیوں نہیں کیا؟‘‘

ملائیشیا اجلاس ،'سعودی ناراض اور عمران کی معذرت‘

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کو کچھ ایسے معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں اسلام آباد کو پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ ''ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا تھا،'' مجھے خدشہ ہے کہ یمن میں معاملات پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یمن میں نہ ایران کومداخلت کا حق ہے اور نہ سعودی عرب کو اور نہ ہی پاکستان کو اس ملک کے معاملات میں پڑنا چاہیے۔‘‘

عبدالستار/ ک م