جنوبی ایشیا کے حالات پر جرمن پریس کا جائزہ
15 مارچ 2010اخبار Tageszeitung لاہور میں خفيہ پوليس کی عمارت پر بم حملے کے بارے ميں لکھتا ہے:
فوجی لحاظ سے بڑی حد تک يہ غير اہم حملہ ايک پيغام سمجھا جاسکتا ہے۔ عسکريت پسند اس حملے کے ذريعے يہ دکھانا چاہتے ہيں کہ وہ پاکستان کے سلامتی اور تحفظ کے انتظامات پر اب بھی کاری ضرب لگانے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ مگر درحقيقت پاکستانی طالبان دفاعی پوزيشن ميں آچکے ہيں۔ پچھلے سال اکتوبر ميں جنوبی وزيرستان ميں اُن کے خلاف فوج کے حملے کے آغاز کے بعد سے طالبان جنگجو راہ فرار اختيار کئے ہوئے ہيں۔ تحريک طالبان پاکستان کو اب کمزور سمجھا جاتا ہے۔ اس سال کے آغاز ميں امريکی خفيہ سروس کے بغير عملے کے جاسوس ڈرون طيارے نے پاکستانی طالبان کے قائد کو ہلاک کرديا۔ پچھلے چند ماہ کے اندر مارے جانے والے يہ طالبان کے دوسرے سربراہ تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس کے بعد سے ، پاکستانی طالبان کی قيا دت کے لئے کئی مخالف گروپوں ميں جھڑپيں ہو چکی ہيں۔
اخبار Neue Zürcher Zeitung رقم طراز ہے:
پاکستان نے گزشتہ ہفتوں کے دوران طالبان کے قائدين کے گرد شکنجہ تنگ کرديا ہے۔ اُن کے کئی چوٹی کے رہنماؤں کو کراچی ميں گرفتار کرليا گيا ہے۔ تاہم گرفتاريوں کی اس لہر نے جوابات فراہم کرنے سے زيادہ کئی نئے سوالات پيدا کئے ہيں۔ مغربی ملکوں ميں پايا جانے والا يہ خيال متنازعہ ہے کہ پاکستان اب طالبان کے خلاف جنگ ميں زيادہ سنجيدہ ہوگيا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ بہت سے ايسے طالبان رہنماؤں کو حراست ميں ليا گيا ہے جنہيں طالبان کے،اعتدال پسند اور مذاکرات کے حامی بازو ميں شامل سمجھا جاتا ہے۔ ان ہی ميں ملا عبدالغنی برادر بھی ہيں جن کے بارے ميں بتايا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے قائد ملا عمر کے نمائندہء اعلی کی حيثيت سے ، قيام امن کے لئے افغان حکومت سےخفيہ مذاکرات کررہے تھے۔ قياس کيا جاتا ہے کہ پاکستان نے ملا برادر کو اس لئے گرفتار کيا ہے تاکہ پاکستان،اپنے ہمسايہ افغانستان کے مستقبل کے سلسلے ميں بات چيت ميں فيصلہ کن فريق کے طور پر حصہ لے سکے۔
اب ايک نظر بھارت پر جہاں پارليمنٹ کے ايوان بالا نے عالمی يوم خواتين کے موقع پر ملکی آئين ميں ترميم کی منظوری دی ہے جس کے مطابق ايوان زيريں اور صوبائی اسمبليوں ميں 33 فيصد نشستيں خواتين کے لئے مخصوص ہوں گی۔ اخبار Neues Deutschland لکھتا ہے کہ يہ ترميم بھارت ميں خواتين کو يکساں حقوق دينے کی راہ ميں ايک اہم قدم ہے۔ اخبار مزيد لکھتا ہے کہ اس طرح بھارت ميں سياسی قواعد ميں ايک ايسی تبديلی آئے گی جو اس سے پہلے کبھی نہيں آئی تھی۔ اس کے حاميوں کا کہنا ہے کہ ترميم ميں بہتری کی راہ ہميشہ کھلی رہے گی۔ اس طرح خواتين کی سياسی فيصلوں ميں شموليت، سماجی اور اقتصادی زندگی ميں اُن کی شرکت ،اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے اُن کی صلاحيت اور اُن کے مساوی حقوق کی صورتحال بہت بہتر ہوجائے گی۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : افسر اعوان