جنوبی سوڈان :ہزاروں افراد بھوک کے سبب لقمہ اجل بن سکتے ہیں
30 جون 2016جنوبی سوڈان میں خانہ جنگی کے خاتمے اور امن معاہدے کی تمام تر کوششوں کے باوجود پانچ ملین انسانوں کی بقاء کو خطرات لاحق ہیں اور ان کی جانیں بچانے کے لیے غذائی امداد درکار ہے۔ دنیا کی اس کم عمر ترین ریاست کو بھوک اور قحط سالی کے اتنے سنگین حالات سے اس سے پہلے کبھی نہیں گزرنا پڑا تھا۔
جنوبی سوڈان کے زراعتی امور کے وزیر لام آکول نے اقوام متحدہ کی طرف سے اس بارے میں سامنے آنے والے انتباہی بیان کے تناظر میں کہا، ’’اس ملک میں قحط کے خطرات کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
جنوبی سوڈان میں دسمبر2013ء میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی اُس کے بعد اپریل میں امن معاہدے کے تحت باغیوں کی سربراہی کرنے والے ریک مچار واپس دارالحکومت آئے جہاں انہوں نے صدر سلوا کیر کے ساتھ ایک یونٹی حکومت قائم کی اور وہ نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔
جنوبی سوڈان میں سرگرم امدادی کارکنوں نے تب ہی سے تشدد اور شورش سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں تاہم امدادی کاموں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ تشدد کی آگ اس ملک کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے اور متحارب جنگجو فورسز اب نہ تو ملکی صدر سلوا کیر اور نہ ہی نائب صدر ریک مچار کو خاطر میں لا رہے ہیں۔
یو این فوڈ اینڈ اگریکلچر آرگنائزیشن ایف اے او، یو این چلڈرن ایجنسی یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام ڈبلیو ایف پی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے: ’’جنوبی سوڈان میں رواں برس جس نوعیت اور شدت کا غذائی عدم تحفظ پایا جاتا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘ ان عالمی اداروں اور تنظیموں کے مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے: ’’آنے والے مہینوں میں جنوبی سوڈان کے 4.8 ملین افراد جو آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ بنتے ہیں، خوراک کی شدید قلت کا شکار ہوں گے اور اس ملک میں بھوک کے المیے کا سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ایماء پر جنوبی سوڈان میں بھوک اور قحط کے بارے میں جاری ہونے والی جائزہ رپورٹ Integrated Food Security Phase Classification (IPC) میں جنوبی سوڈان کی شمالی ریاست یونٹی اور علاقے بحر الغزل کو بھوک اور قحط سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے قرار دیا ہے۔ اس جائزہ رپورٹ میں جنوبی سوڈان میں پائی جانے والے اس المیے کو ’’پانچویں درجے کا بحران‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
جنوبی سوڈان کے یونیسیف کے سربراہ Mahimbo Mdoe نے اس بارے میں کہا ہے، ’’اس ملک میں بچوں میں کم خوراکی کی مسلسل چلی آ رہی صورتحال حقیقی معنوں میں خطرے کی گھنٹی ہے۔‘‘
جنوبی سوڈان میں جنگ اور تشدد کے ساتھ ساتھ ملک میں پایا جانے والی بدعنوانی بھی خوراک کی قلت اور بھوک کا سبب بنی ہے۔ تیل کی صنعت مکمل طور پر تباہ ہو چُکی ہے جس پر حکومت کی آمدنی کا انحصار تھا۔ جوبا حکومت نے نو جولائی کو آزادی کی پانچویں سالگرہ کے جشن اور تقریبات منسوخ کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ Mahimbo Mdoe کے مطابق رواں برس جنوبی سوڈان میں ایک لاکھ سے زائد بچوں میں کم خوراکی کی وجہ سے گوناگوں بیماریوں کا سامنا رہا اور ان کا اعلاج کیا جا چُکا ہے۔ 2015ء کے مقابلے میں یہ 40 فیصد کا اضافہ ہے جبکہ 2014ء سے اگر اس کا مقابلہ کیا جائے تو کم خوراکی سے جُڑی بیماریوں کے شکار بچوں کی تعداد میں 150 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔