1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری آبدوز بھارتی بحریہ میں شامل

4 اپریل 2012

آج بدھ کو بھارت کی جنوبی بندر گاہ وشاکا پٹنم میں ہونے والی ایک تقریب میں ایک روسی ساختہ جوہری آبدوز بھارتی بحریہ میں شامل کر لی گئی۔ بھارت کے پاس اس سے پہلی 1991 ء تک ایٹمی آبدوز موجود تھی۔

https://p.dw.com/p/14XVB
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ آبدوز 8,140 ٹن وزنی ہے اور اس کا نام آئی این ایس چکرہ دوم رکھا گیا ہے۔ بھارت نے یہ آبدوز روس سے دس سال کے عرصے کے لیے پٹے پر حاصل کی ہے۔

اگرچہ یہ آبدوز جوہری ہتھیار لے جا سکتی ہے مگر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی تعمیل کرنے کے لیے یہ صرف کروز میزائلوں سے لیس ہو گی جن کے وار ہیڈز روایتی ہوں گے۔

یہ آبدوز جنوری میں روسی بندر گاہ ولادی ووستوک میں بھارتی بحریہ کے حوالے کی گئی تھی۔

آج بدھ کو اس حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی نے امید ظاہر کی کہ یہ آبدوز بھارت کے سمندری مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے کہا: ’یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ اس کا مقصد بھارتی بحریہ کو مستحکم کرنا ہے تا کہ وہ اپنی قومی سلامتی کے خلاف کسی بھی خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹ سکے۔‘

بھارت کے پاس اس سے پہلے ایک سوویت ساختہ ایٹمی آبدوز موجود تھی مگر 1991ء میں اس کی عمر پوری ہونے کے بعد اس کا استعمال ترک کر دیا گیا تھا۔

Indien Verteidigungsminister A.K. Antony
بھارتی وزیر دفاع نے آبدوز کی بحریہ میں شمولیت کے موقع پر کہا کہ یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہےتصویر: AP

بھارتی بحریہ کے اپنا نام ظاہر نہ کرنے والے ایک افسر نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا: ’(اس آبدوز سے) ہمارے عملے کو مسلسل کئی ماہ تک پانی کے نیچے وقت گزارنے کا تجربہ حاصل ہو گا جو کہ ڈیزل سے چلنے والی روایتی آبدوزوں سے مختلف ہے کیونکہ انہیں وقفے وقفے سے پانی کی سطح پر آنا پڑتا ہے۔‘

بھارت میں اس وقت ملکی ساختہ اریہنت آبدوز کی تیاری پر بھی کام جاری ہے۔ بھارت نے روسی آبدوز کے حصول کی درخواست 2004ء میں دی تھی اور اسے 2009ء میں بھارتی بحریہ کے حوالے کیا جانا تھا مگر اس میں تاخیر ہو گئی تھی۔

اس وقت دنیا کے پانچ دیگر ملکوں کے پاس ایٹمی آبدوزیں موجود ہیں جن میں برطانیہ، چین، فرانس، امریکا اور روس شامل ہیں۔

(hk/mm (DPA/AFP