جوہری پروگرام: ایران کے موقف میں لچک
2 ستمبر 2009تہران کے جوہری پروگرام کے اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی نے صحافیوں کو بتایا کہ مغرب اور بین الاقوامی برادری کے خدشات دور کرنے کے لئے ایران حکومت اپنے نئے منصوبے سب کے سامنے رکھنے کے لئے تیار ہے۔
ایران کے مذاکرات کار سعید جلیلی نے منگل کو اس امید کا اظہار کیا کہ تہران کے ایٹمی پروگرام پر جلد ہی مذاکرات کا نیا دور شروع ہوگا۔ ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں امن، انصاف اور ترقی کے لئے بات چیت کے ذریعے تعاون کر سکتے ہیں۔‘‘
جلیلی نے بغیر تفصیلات بتائے کہا کہ مذاکرات سے متعلق نئے منصوبوں پر مبنی ایک پیکیج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے سامنے رکھا جائے گا۔
سعید جلیلی کی طرف سے مذاکرات کی اس پیشکش کی ٹائمنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ آج بدھ کو ہی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی فرینکفرٹ میں تہران کے جوہری پروگرام پر مزید بات چیت کرنے والے ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا اصرار ہے کہ تہران حکومت پر مزید سخت پابندیاں عائد کی جانی چاہییں۔
امریکہ نے ایران حکومت کو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے ستمبر کے آخر تک کا وقت دے رکھا ہے۔ وائٹ ہاوٴس کے مطابق یہ معیاد یعنی ڈیڈ لائن گزرجانے کے بعد تہران پر مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ وائٹ ہاوٴس نے منگل کے روز یہ بھی بتایا کہ ابھی تک اسے مذاکرات سے متعلق ایران کی طرف سے رسمی طور پر کوئی پیغام موصول نہیں ہوا ہے۔
وائٹ ہاوٴس کے ترجمان رابرٹ گبس نے کہا کہ ایران کے مذاکرات کار کی طرف سے تازہ پیشکش کے بارے میں رپورٹوں کے بارے میں انہیں علم تو ہے تاہم ابھی تک کوئی رسمی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ’’ہمیشہ سے ہی ہماری یہ توقع اور امید رہی ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کے خدشات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر انہیں دور کرے۔‘‘
مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا مقصد جوہری ہتھیار بنانا ہے تاہم تہران حکومت کے مطابق اس کا نیوکلیئر پروگرام بالکل پر امن مقاصد کے لئے ہے۔
مغربی ممالک ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو ایک سخت گیر موقف رکھنے والے سیاست دان کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسرائیل کی ریاستی حیثیت کو بلا خوف تردید کئی مرتبہ چیلنج کرچکے ہیں۔ ایرانی حکام کا تاہم کہنا ہے کہ جوہری پروگراموں سے متعلق امریکہ اور یورپ نہ صرف دوہرے معیار سے کام لیتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں ان کی پالیسیوں میں کھلم کھلا تضاد موجود ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: ندیم گِل