حجاب کی خلاف ورزی، دو درجن سے زائد ایرانی خواتین گرفتار
2 فروری 2018ایرانی حکام نے بتایا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران پہلی فروری تک پبلک مقامات پر حجاب نہ کرنے پر کم از کم انتیس خواتین کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان خواتین کو مختلف شہروں میں حراست میں لیا گیا۔ اسی ہفتے کے دوران نصف درجن خواتین کو ایرانی دارالحکومت تہران سے گرفتار کیا گیا۔
اسلامی عقائد کی خلاف ورزی، نرم رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ
ایران میں پابندی کی شکار کھلاڑی اب امریکا کی ٹیم میں شامل
ایرانی لڑکیوں کی بچپن کی شادیوں کے بعد جبر سے عبارت زندگی
’خواتین کو فٹ بال تو دیکھنے دیا جائے‘
پولیس کے مطابق ان خواتین نے ایک پراپیگنڈا مہم کے زیرِ اثر حجاب اتارا تھا۔ یہ خواتین سرعام کسی بھی مقام پر اپنے حجاب کو سر پر سے اتار کر ہوا میں لہرا دیتی ہیں۔ ان خواتین کے خلاف مذہبی علما کے ساتھ ساتھ سخت عقیدے کے حامل مرد اور وہ بوڑھی خواتین بھی شامل ہیں جو حجاب کو ایک مذہبی ضرورت تصور کرتی ہیں۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق یہ پراپیگنڈا مہم غیر ممالک میں مقیم ایرانی شہریوں نے شروع کر رکھی ہے۔ حجاب ختم کرنے کی مہم گزشتہ برس دسمبر سے شدت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس مہم کے ذریعے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حجاب لازمی طور پر کرنے کی پابندی کو ختم کرے۔
ابھی تک ایران کے صدر حسن روحانی نے حجاب مخالف تحریک کے حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم پہلی فروری کو حسن روحانی نے یہ ضرور کہا تھا کہ ایرانی آبادی کے مسائل پر حکومت کی توجہ مرکوز ہونا ضروری ہے اور جہاں ضرورت ہو وہاں عوامی خیالات کا سننا مناسب ہوتا ہے۔
صدر حسن روحانی نے یہ بھی کہا کہ اگر عوام حکومت کی پشت پر نہ ہو تو وہ کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ روحانی کے مطابق عوام کی تنقید کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد خواتین اور نو برس سے زائد عمر کی لڑکیوں کو لازمی طور پر سر ڈھانپنا اور لمبا کوٹ یا عبایا پہننا ہوتا ہے۔ اس پابندی کی خلاف ورزی پر کسی بھی خاتون یا لڑکی کو ہفتوں جیل میں مقید رکھا جا سکتا ہے۔