حزب اسلامی سے امن بات چیت، کرزئی نے تصدیق کر دی
22 جنوری 2012صدر کرزئی نے ملکی دارالحکومت کابل میں اس بارے میں ایک اعلان امریکہ کے خصوصی نمائندے مارک گروسمین کے ساتھ اپنی ملاقات سے محض چند گھنٹے پہلے کیا۔ بعد میں مارک گروسمین کے ساتھ اپنی بات چیت میں افغان صدر نے طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ باقاعدہ امن مذاکرات کی کوششوں اور ان کے اب تک نتائج کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔
افغان صدر کی طرف سے ہفتے کو ملکی پارلیمان کے ایک اجلاس میں دیے گئے سابق وزیر اعظم اور عسکریت پسندوں کے ایک رہنما گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی نامی ملیشیا کے ساتھ ذاتی مکالمت سے متعلق بیان کو اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ حامد کرزئی امریکی قیادت میں کی جانے والی عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کی کوششوں میں اپنے لیے نمایاں کردار کے خواہش مند ہیں۔
حزب اسلامی کے ساتھ اپنے ذاتی رابطوں کے بارے میں افغان صدر نے پارلیمان کو بتایا، ’’ابھی حال ہی میں ہم نے حزب اسلامی کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات میں مذاکرات کیے۔ ہمیں امید ہے کہ امن کے لیے یہ مکالمت جاری رہے گی اور ہمیں اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔‘‘
خبر ایجنسی اے پی نے کابل سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ افغان صدر کا عسکریت پسندوں کے ساتھ ذاتی بات چیت سے متعلق یہ بیان اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی بھی مذاکرات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوں گے کہ بس طالبان باغیوں کی ملا محمد عمر کی سربراہی میں مبینہ طور پر پاکستان میں روپوش قیادت کے ساتھ بات چیت کر کے مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے۔
اے پی کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے افغان عسکریت پسندوں کے ان دو بڑے گروپوں کے ساتھ بھی بات چیت لازمی ہو گی، جن کی اپنی قیادت اور ایجنڈے ہیں۔
اس بارے میں مختلف خبر ایجنسیوں نے لکھا ہے کہ گلبدین حکمت یار کی شدت پسند مذہبی نظریات رکھنے والی ملیشیا کو افغانستان کے شمال مشرق میں کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے۔ بہت طاقتور سمجھے جانے والے حکمت یار مبینہ طور پر پاکستان میں ہیں، ان کے القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں، وہ ماضی میں امریکی اتحادی رہ چکے ہیں لیکن اب ان کا نام امریکہ کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ حامد کرزئی کے لیے ایک مشکل مرحلہ افغان عسکریت پسندوں کے ایک اور بڑے گروپ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ممکنہ امن بات چیت بھی ہو گی، جس کے القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ساتھ قریبی رابطے ہیں اور جس کے جنگجوؤں کی تعداد کا تخمینہ قریب 10 ہزار لگایا جاتا ہے۔
کابل میں امریکی خصوصی نمائندے گروسمین کی حامد کرزئی کے ساتھ بات چیت کے بارے میں امریکی سفارت خانے نے بس اتنا ہی کہا کہ مارک گروسمین نے افغان صدر کے ساتھ اپنی بات چیت میں زور دے کر کہا کہ افغان عسکریت پسندوں کے ساتھ مستقبل کی کسی بھی مکالمت میں افغان حکومت شامل ہو گی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شامل شمس