1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلیجی ممالک میں ورکرز پر کورونا وائرس کی لٹکتی ہوئی تلوار

30 مارچ 2020

کورونا وائرس کے وبا کے باعث خلیجی ملکوں میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ ايسے ميں وہاں کام کرنے والے لاکھوں غیر ملکی ورکرز غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔

https://p.dw.com/p/3aB9I
Arbeiter Doha
تصویر: picture-alliance/dpa

خليجی ممالک ميں آجرین نے ملازمین کی اجرتیں روک دی ہیں یا انہیں ملازمت سے نکال دیا ہے، بعض ورکرز کو وطن لوٹنا پڑا ہے یا پھر وہ پھنس گئے ہیں۔

ایک ستائیس سالہ پاکستانی انجینيئر کا کہنا تھا، ”پچھلے آٹھ دس دنوں سے لاک ڈاون کی وجہ سے ہم قید ہوکر رہ گئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئی ہیں۔ حکومت کھانا تو فراہم کر رہی ہے لیکن کئی دنوں کے بعد اور وہ بھی بہت تھوڑی مقدار میں۔“

انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں ڈھیر سارے لوگوں کو رہنا پڑ رہا ہے اور صفائی ستھرائی کا خاطرخواہ انتظام بھی نہیں ہے، اس لیے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان ورکروں کو تنخواہیں بھی نہیں دی گئی ہیں اور انہیں یا تو من مانے طور پر برطرف یا پھر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ يہ صورتحال ان کی آمدنی پر انحصار کرنے والے کنبوں کے لیے ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کے خلیجی امور سے وابستہ حبہ ضیاء الدین نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے مہاجر ملازمین کو لیبر گورننس سسٹم کی وجہ سے پہلے سے ہی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان قوانین کی وجہ سے آجرین کو ان مہاجر ورکرز پر بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں جس کا وہ بے جا استعمال اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔

Katar Ausländische Bauarbeiter warten auf ihren Bus zurück zur Unterkunft in Doha
تصویر: picture-alliance/dpa

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ خلیجی ملکوں میں کورونا وائرس کے اب تک 3200 معاملات سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد ورکروں کو’کیمپوں میں قید‘ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ملکوں میں غیر ملکی ورکرز میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور نیپاليوں کی ہے۔ یہ دنیا بھر میں مہاجر ورکرز کی تعداد کا تقریباً دس فیصد ہیں۔

خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے بیشتر غیر ملکی مزدوروں کو خوف ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے انہیں جہاں صحت کو خطرہ لاحق ہے وہیں انہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

سعودی عرب، جہاں تقریباً دس ملین غیر ملکی ورکرز کام کرتے ہیں، میں کام کرنے والے مزدوروں کو شکایت ہے کہ ان کے مالکان انہیں کام کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں جب کہ ان کے سعودی رفقائے کار کو تنخواہوں کے ساتھ قرنطینہ چھٹی دی جاری ہے۔ ایک مزدور نے بتایا کہ اس کے مالک نے کہا کہ اگر اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے تو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر چلا جائے، لیکن وہ طبعیت کی خرابی کے باوجود کام کرتے رہنے کے لیے مجبور ہے۔

ریاض میں ایک عرب سفارت کار نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ 'بہت سے شعبوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے نجی سیکٹر میں کام کرنے والے بہت سے ورکز کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ ان کے مالکان تنخواہوں کے بغیر رہنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔‘

سعودی عرب کے بعد غیر ملکی ورکرز کی سب سے زیادہ 8.7 ملین تعداد متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے، اس کے بعد کویت کا نمبر ہے جہاں یہ تعداد 2.8 ملین ہے۔

کویت میں ایک سیلون کی منیجر مصری خاتون ام صابرین کا کہنا تھا کہ چونکہ حکومت نے غیر ضروری بزنس کو بند کرا دیا ہے اس لیے ان کی تنخواہ رو ک دی گئی۔ اب وہ اپنے آجر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچ رہی ہے لیکن بیشتر لوگ اتنی ہمت نہیں کر پاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے اپنے وطن میں صحت کی صورت حال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے۔

Die schlimmsten Airports der Welt (Bildergalerie) Kathmandu Tribhuvan International
تصویر: Prakash Mathema/AFP/Getty Images

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اس صورت حال سے کافی فکر مند ہے۔ قطر میں آئی ایل او کے سربراہ ہوشن ہمایوں پور کہتے ہیں کہ  اب تک تو بڑے پیمانے پر مزدوروں کو ملازمت سے نکالا نہیں گیا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو ان ملکوں کو بہت بڑے اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا جن سے ان مزدوروں کا تعلق ہے۔ اور اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔

ج ا /  ص ز (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید