خواجہ آصف بھی نا اہل
26 اپریل 2018جمعرات چھبیس اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نون کے رکنِ قومی اسمبلی اور موجودہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے نا اہل قرار دے دیا۔ عدالت نے خواجہ آصف کو بھی پاکستانی دستور کے آرٹیکل 62(1)(f) کی روشنی میں پالیمنٹ کی رکنیت رکھنے سے محروم کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق اس آرٹیکل کے تحت نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔
نواز شریف بمقابلہ چیف جسٹس، ’جنگ‘ کہاں تک جائے گی؟
نواز شریف کا میڈیا بلیک آؤٹ، الزام ججوں اور جرنیلوں پر
پاکستانی سیاست: نواز شریف کی تاعمر نااہلی کے بعد ہو گا کیا؟
مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر ڈیل کی خبریں
یہ فیصلہ رواں مہینے کی دس تاریخ کو عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ سن 2013 کے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں تھے۔ عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ فیصلے کی نقول اسپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کو فوری طور پر ارسال کرے تا کہ خواجہ آصف کی نشست کو خالی قرار دیا جائے۔
خواجہ آصف کو نا اہل قرار دینے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ کی قیادت میں قائم تھا۔ اس کے بقیہ دو ارکان میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی شامل تھے۔ عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا اور مکمل فیصلہ جلد جاری کرنے کا بھی بتایا۔
عدالت میں خواجہ آصف کے خلاف اثاثے چھپانے کی درخواست پاکستان تحریک انصاف کے عثمان ڈار نے جمع کرائی تھی۔ اس درخواست میں بتایا گیا کہ خواجہ آصف نے متحدہ عرب ریاست میں کام کرنے کا اقامہ مخفی رکھا جب کہ وہ اٹھائیس جون سن 2019 تک کارآمد ہے۔ ڈار کے وکیل نے عدالت میں اپنے دلائل میں واضح کیا کہ ایک وفاقی وزیر کے منصب کے تحت اقامہ چھپانا دستور کے منافی ہے۔
خواجہ آصف سیالکوٹ کے ایک حلقے این اے 110 رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اُن کے مدِ مقابل امیدوار عدالت میں درخواست دینے والے عثمان ڈار تھے۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں نے آصف کے خلاف دیے گئے عدالتی فیصلے کو پاکستان مسلم لیگ نون اور تاحیات نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔
خواجہ آصف پاکستان مسلم لیگ کے ایک اہم سیاستدان ہونے کے علاوہ زوردار مقرر بھی تصور کیے جاتے تھے۔ وہ اپنے حلقے میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اُن کا تعلق سیالکوٹ شہر کی کشمیری کمیونٹی سے ہے۔ وہ سینیٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اُن کے خلاف درخواست دینے والے عثمان ڈار کا تعلق بھی مقامی کشمیری کمیونٹی سے ہے۔
ع ح ⁄ ش ح ⁄ روئٹرز