’خواہ کورونا وائرس ہوجائے شاہین باغ احتجاج جاری رہے گا’
18 مارچ 2020بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافے کے مدنظر حکومت کی وارننگ کے باوجود دہلی کے شاہین باغ کی خواتین نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منفرد نوعیت کے اس مظاہرہ میں شامل خواتین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مقابلے میں سی اے اے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ حالیہ وبا تو کچھ عرصے کے بعد ختم ہوجائے گی جبکہ متنازعہ قانون آنے والی نسلوں کو تباہ کردے گا۔
کورونا وائرس کی وبا کے مدنظر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کسی مقام پر پچاس سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم کے مدنظر دہلی پولیس کے اعلٰی افسران نے شاہین باغ جاکر مظاہرین کو اپنی تعداد محدود کرنے کی درخواست کی اورایسا نہ کرنے پر قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی لیکن خواتین نے ان کی اپیل مسترد کردی۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے شبانہ شاہین نامی ایک خاتون کا کہنا تھا ”ہمارے وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ کسی ایک جگہ پر پچاس سے زائد افراد جمع نہ ہوں، لیکن پارلیمنٹ کے بارے میں وہ کیا کہیں گے، جہاں ان دنوں اجلاس جاری ہے یا پھرشادی کی تقریبات کے بارے میں ان کا کیا رائے ہے؟" خیال رہے کہ مظاہرہ میں شریک بیشتر خواتین نے اپنے نام کے ساتھ شاہین باغ کی مناسبت سے شاہین کا لاحقہ لگالیا ہے۔
دہلی اور مرکزی حکومت کے رویے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شبانہ نے کہا ”ہم پر پیسے لے کر دھرنا میں شریک ہونے کا بیہودہ الزام لگایا گیا، فسادات کے ذریعہ ہمیں ڈرانے کی کوشش کی گئی، اب کورونا وائرس کا حوالہ دے کر حکومت ہمیں خاموش کرانا چاہتی ہے لیکن ہم حکومت کی اس کوشش کو بھی ناکام بنادیں گے۔" انہوں نے سوال کیا ”کیا وزیر اعلٰی اروند کیجریوال یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ شمال مشرقی دہلی میں حالیہ فسادات کے بعد عارضی کیمپوں میں سینکڑوں کی تعدا دمیں رہنے کے لیے مجبور پناہ گزینوں کو کورونا وائرس متاثر نہیں کرے گا؟"
خیال رہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض رہنماؤں کی طرف سے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف دیے گئے مبینہ اشتعال انگیز بیانات کے بعد گزشہ ماہ دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جس میں پچاس سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ ایک درجن سے زائد مساجد کے علاوہ سینکڑوں مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ اب بھی کئی ہزار افراد عارضی راحتی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
صفیہ نامی ایک خاتون کا کہنا تھا ”ہمیں کورونا وائرس اور سی اے اے دونوں سے ہی لڑنا ہے۔ اس لڑائی میں ہمارے لیے سی اے اے کورونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے سی اے اے کے خلاف ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ بیمار ہونے کے ڈر سے ہم اپنی تحریک چھوڑ کر گھر میں نہیں بیٹھ سکتے۔" انہوں نے مزید کہا”دہلی حکومت نے شہر میں جگہ جگہ محلہ کلینک کھول رکھے ہیں۔ اگراسے ہماری اتنی ہی فکر ہے تو شاہین باغ میں مظاہرہ کی جگہ پر بھی ایک محلہ کلینک کھول دے۔ لیکن اس نے تو یہاں سینیٹائزر اور ماسک جیسی سہولیات فراہم کرنے پر بھی توجہ نہیں دی ہے۔"
نور جہا ں نامی ایک خاتون کا کہنا تھا ”اگر حکومت کو ہماری اتنی ہی فکر ہے تو اس سیاہ قانون کو واپس کیوں نہیں لے لیتی ہے۔ اگر سی اے اے کا قانون واپس ہوجائے تو ہم ابھی اس سڑک سے اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلی جائیں گی۔ لیکن قانون واپس نہ ہونے تک ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گی ، خواہ ہمیں کورونا وائرس ہوجائے یا کچھ اور۔"
مظاہرہ میں اب بھی پانچ سو سے زیادہ خواتین شریک رہتی ہیں۔ شام کے وقت اس تعداد میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے۔ خواتین نے صحت سے متعلق بیداری کے لیے خود ہی انتظامات کرلیے ہیں۔ انہیں صحت کے حوالے سے مشورے بھی دیے جارہے ہیں اور ان کے جسم کا درجہ حرارت بھی چیک کیا جارہا ہے۔ ضرورت مند خواتین کو دوائیں بھی تقسیم کی جارہی ہے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ دارالحکومت دہلی کی ایک چھوٹی سی بستی شاہین با غ میں کڑکڑاتی سردی، موسلادھار بارش اور ژالہ باری کے علاوہ انتہائی نازیبا الزامات، فائرنگ کے واقعات اور شمال مشرقی دہلی میں فسادات نیز انتظامیہ کی جانب سے دھمکی کے متعدد حربے آزمانے کے باوجود یہ خواتین پوری ہمت سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گزشتہ پچانوے (95) دن سے پرامن احتجاج کررہی ہیں۔ شاہین باغ کے اس منفرد احتجاج نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے اور بھارت میں سینکڑوں مقامات پر اسی طرح کے مظاہرے جاری ہیں۔
دریں اثنا تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھار ت میں فو ج کا ایک جوان سمیت147 افراد کے کورونا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ اب تک تین افراد اس وبا سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
جاوید اختر،نئی دہلی