’خوراک نہ ملی تو لوگ ایک دوسرے کو مار ڈالیں گے‘
24 مارچ 2018عالمی ادارے کے مطابق خطرہ ہے کہ ان افراد میں سے بڑی تعداد اس صورت حال میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے سربراہ ڈیوڈ بیاسلے نے جمعے کے روز سلامتی کونسل میں ایک ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ خوراک کی عدم دستیابی کے شکار ان افراد میں سے 32 ملین چار ممالک کے شہری ہیں، جن میں صومالیہ، یمن، جنوبی سوڈان اور نائجیریا شامل ہیں۔ ان ممالک میں گزشتہ برس صورت حال قحط کے قریب تھی۔
ایرانیوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا، شیریں عبادی
کروڑوں بھارتی بھوکے، لیکن سالانہ اربوں ڈالر کی خوراک ضائع
جنگ سے متاثر یمن کو اب خُناق کی وبا کا سامنا
عالمی ادارے کے مطابق خوراک کی کمی کی بنیادی وجہ مختلف ممالک میں جاری مسلح تنازعات ہیں۔ ’’بھوک اور تنازعات کے درمیان تعلق انتہائی مضبوط ہے اور یہ نہایت تخریبی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’تنازعات خوراک کی کمی کی وجہ بن رہے ہیں۔ فوڈ انِسکیورٹی عدم استحکام اور تشدد کو جنم دے سکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر خوراک کی کمی کے شکار 815 ملین افراد میں سے ساٹھ فیصد یہ بھی نہیں جانتے کہ انہیں اگلا کھانا کہاں سے ملے گا۔
سلامتی کونسل سے خطاب میں اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے شعبے کے سربراہ مارک لوکاک نے بتایا کہ پیش گوئیوں کے برخلاف حالیہ کچھ دہائیوں میں قحط کے واقعات اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی اجناس کی پیداوار اور عالمی سطح پر لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ’نہایت خوش آئند پیش رفت‘ ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ قحط کے باقی ماندہ خطرات اور بھوک سے متاثرہ علاقوں والے ممالک اب کم ہیں اور زیادہ تر یہ وہ ممالک ہیں، جب بڑے پیمانے پر مسلح تنازعات جاری ہیں۔
لوکاک نے بتايا کہ جمعرات کے روز ورلڈ فوڈ پروگرام اور یورپی یونین کی جانب سے جاری کردہ ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فوڈ انسکیورٹی کی ایک بنیادی وجہ شدید موسمياتی حالات اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہیں۔
لوکاک نے مزيد کہا کہ گزشتہ برس یمن، شمال مشرقی نائجیریا اور جنوبی سوڈان میں قحط نہیں پھیلنے دیا گیا تھا، تاہم اب بھی یہ ممالک اگلے چھ ماہ تک قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایتھوپیا، صومایہ اور کانگو میں خوراک کی قلت تشویش ناک ہے۔