خونریز جھڑپوں کے بعد طورخم کی سرحدی گزرگاہ دوبارہ کھل گئی
18 جون 2016پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ اٹھارہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق دونوں ملکوں کے مابین جملہ سرحدی گزر گاہوں میں سے شمال مغربی پاکستان میں خیبر ایجنسی نامی قبائلی علاقے میں طورخم کے مقام پر اس مصروف ترین بارڈر کراسنگ کے کئی روزہ بندش کے بعد دوبارہ کھولے جانے کی تصدیق دو پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے کی۔
افغانستان اور پاکستان کے سیاسی کے علاوہ سرحدی امور سے متعلق تعلقات بھی گزشتہ کچھ عرصے سے کافی کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ طورخم کی یہ گزر گاہ اس وقت بند کر دی گئی تھی جب پاکستانی اور افغان دستوں کے مابین وہاں پر فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا تھا۔
اس کا سبب اسی سرحد پر لیکن پاکستانی علاقے میں ایک ایسے گیٹ کی تعمیر کا منصوبہ بنا تھا، جس کی مدد سے پاکستان اپنے ہاں افغان باشندوں کی غیر قانونی آمد روکنا چاہتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ دو پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ طورخم کی بارڈر کراسنگ ہفتہ 18 جون کی صبح سے نہ صرف دوبارہ کھول دی گئی ہے بلکہ اب ضروری اور مکمل سفری دستاویزات کے حامل افراد کو اس کراسنگ سے گزرنے کی اجازت بھی دی جا رہی ہے۔
طورخم کا بارڈر گزشتہ اتوار 12 جون کو بند کر دیا گیا تھا اور اس وجہ سے اس گزر گاہ کے دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اور افغان شہری پھنس کر رہ گئے تھے۔
اس کے علاوہ سرحد کے دونوں طرف ایسی ہزار ہا مال بردار گاڑیوں کی بھی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں لگ گئی تھیں، جو ہر روز بہت بڑی تعداد میں کئی طرح کا سامان لے کر یہ سرحد پار کرتی ہیں۔
طورخم بارڈر کراسنگ اور اس کے بہت قریبی علاقے میں پاکستانی اور افغان سکیورٹی دستوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی بھی ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں دو افغان سرحدی محافظوں کے علاوہ ایک پاکستانی میجر بھی شامل تھا۔ اس دوطرفہ فائرنگ میں دو بچوں سمیت 13 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
میجر جواد علی چنگیزی کو گزشتہ اتوار کے روز سرحد پار سے کی جانے والی فائرنگ کے دوران شدید نوعیت کے زخم آئے تھے، جس کے ایک دن بعد ہسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ طورخم بارڈر کے دوبارہ کھولے جانے کی تصدیق کرنے والے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی شناخت اس وجہ سے خفیہ رکھے جانے کی خواہش کی کہ انہیں اس بارے میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کی اجازت نہیں ہے۔
دوسری طرف اس سرحدی گزر گاہ کے دوبارہ کھولے جانے سے ممکنہ طور پر اسلام آباد اور کابل کے مابین پائی جانے والی اس کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی، جس کا سبب بننے والے طاقت کے استعمال کے آغاز کا الزام دونوں ملک ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔
گزشتہ ویک اینڈ پر اطراف کے سکیورٹی دستوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے بعد پاکستان اور افغانستان دونوں نے ہی اپنے اضافی مسلح دستے بھی اس علاقے میں تعینات کر دیے تھے۔