خیبر ایجنسی میں فوج کی بمباری، عام شہریوں سمیت71 افراد ہلاک
13 اپریل 2010ہفتے کے روز ملکی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے خیبر ایجنسی کے علاقے تیرہ میں بمباری کی تھی اور ابتدائی رپورٹوں میں فوجی ذرائع نے 48 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا تاہم مقامی قبائلی عمائدین اور حکام کی جانب سے سامنے آنے والی تازہ اطلاعات میں بتایا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد 71 ہے اور ان ہلاک شدگان میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں 20 افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔ حکومت کی جانب سے بھی اس واقعے کے بعد متاثرین کے لئے دس اعشاریہ پانچ ملین روپے (ایک لاکھ پچیس ہزار ڈالر) کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔
خیبر ایجنسی میں نائب پولیٹیکل ایجنٹ ریحان گل خٹک نے بھی اس واقعے میں 71 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ علاقے میں متعیق ایک سرکاری اہلکار کے مطابق علاقے کے بزرگ یہ تفتیش کر رہے ہیں کہ ان میں سے کتنے افراد بے گناہ تھے اور کتنے افراد کا تعلق کسی عسکریت پسند تنظیم سے تھا۔
علاقے کے ایک بزرگ رہنما ملک غفار کوکی خیل کے مطابق مرنے والے تمام افراد عام شہری تھے اور ان کا کسی عسکریت پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے تمام افراد عسکریت پسند تھے۔ فوج نے خیبر ایجنسی میں بمباری کے واقعے میں کسی عام شہری کی ہلاکت کی تردید کی تھی۔ فوج کے مطابق ان عسکریت پسندوں کا تعلق مقامی عسکریت پسند گروپ لشکر اسلام سے تھا اور واقعے میں متعدد طالبان جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔
اس واقعے میں زخمی ہونے والے خوشمالو خان نے پیشاور کے ایک ہسپتال میں خبر رساں ادارے AFP کو بتایا کہ وہ اپنے گھر میں موجود تھے، جب پاکستانی جیٹ طیاروں نے اس علاقے پر بمباری کرکے تمام مکانات تباہ کر دئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بمباری کے نتیجے میں ان کے 18رشتہ دار ہلاک ہوگئے جبکہ انہیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ان کی دائیں ٹانگ گھٹنے کے پاس سے کاٹ دی گئی ہے۔
’’ہم نے اپنے خاندان کی پانچ خواتین اور چھ بچے اس واقعے میں کھو دئے۔ ان بچوں کی عمریں ایک سے آٹھ برس کے درمیان تھیں، اس واقعے کے بعد ہم بچ جانے والوں کی امداد میں مصروف تھے کہ ایک اور طیارے نے حملہ کر دیا۔ اس دوسرے حملے میں مزید سات رشتہ دار ہلاک ہوگئے۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف