داداب، دنيا کا سب سے بڑا مہاجر کيمپ
22 جولائی 2011قرن افريقہ کے ممالک ميں خشک سالی اور قحط کی حالت نہايت خراب ہے۔ جو کسی طرح سے بچ کر کينيا کے تقريباً چار لاکھ کی آبادی والے اس کيمپ ميں آگيا ہے، وہ خوش قسمت ہے۔ داداب نامی اس کيمپ کے اندراج کے مرکز ميں روزانہ تقريباً 2000 مہاجر آتے ہيں۔ان ميں سے بہت سے ايسے ہيں، جنہوں نے يہاں آنے کے ليے ناتواں اجسام کی آخری توانائی کو اکٹھا کر کے ہفتوں پيدل سفر کيا ہے۔ فطومہ نور نے، جس سے تين بچے چمٹے ہوئے ہيں، کہا: ’’ہمارے پاس کچھ اراضی اور مويشی تھے۔ ليکن ہمارے سارے اونٹ، گائيں اور بکرياں مر گئيں اور زميں خشک ہو کر بيکار ہوگئی ہے۔ کھانے پينے کی چيزيں اتنی زيادہ مہنگی ہو گئی ہيں کہ ہم اُنہيں خريد نہيں سکتے۔‘‘
فطومہ کو داداب کيمپ ميں کھانے پينے کی چيزوں کے ليے ايک کارڈ ملا ہے۔ اس کے ذريعے اُسے ايک لمبی مدت کے بعد پہلی مرتبہ کچھ مناسب اشيائے خوردونوش ملی ہيں اور وہ اپنے بچوں کو بھی موزوں خوراک دے سکتی ہے۔
قرن افريقہ کی موجودہ خشک سالی پچھلے بہت طويل عرصے ميں پيدا ہونے والی سب سے شديد خشک سالی ہے۔ بارش کے کئی موسم بارش کے بغير ہی گذر گئے ہيں۔ مويشی ايک عر صہ پہلے ہی مر چکے ہيں اور کھيتوں ميں کچھ بھی نہيں اگ رہا ہے۔ خاص طور پر صوماليہ کا جنوبی علاقہ اس آفت کا شکار ہے، جو پہلے ہی بہت زيادہ خستہ حال ہے۔ يہاں لوگ کئی عشروں سے جنگ اور تنازعات کی چکی ميں پس رہے ہيں۔ يہاں دہشت گرد تنظيم الشباب کی حکمرانی ہے، جس نے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک ہر قسم کی مدد کو يہاں آنے سے روک رکھا تھا۔
فطومہ نے کہا کہ الشباب اور خشک سالی دونوں ہی برے ہيں۔ پہلے الشباب نے بے گناہ لوگوں کو قتل کيا اور اب بھوک انہيں مار رہی ہے۔ اسی ليے ہم گھر بار چھوڑ کر کينيا آئے ہيں۔
اگرچہ الشباب نے اب خود امدادی اداروں سے مدد کی درخواست کی ہے ليکن يہ تنظيميں يہاں اپنے کارکن بھيجنے سے خائف ہيں۔ ايک امدادی تنظيم کے کارکن کا کہنا ہے کہ آبادی کی تکاليف اور مصائب اب اتنے بڑھ گئے ہيں کہ اُن کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
رپورٹ: ڈيک ہانس آنتيے/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی