1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دروپدی مرمو بھارت کی نئی اور پہلی قبائلی صدر بن گئیں

جاوید اختر، نئی دہلی
22 جولائی 2022

دروپدی مرمو بھارت کی پندرہویں صدر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ پہلی قبائلی اور دوسری خاتون صدر ہیں اور 25 جولائی کو اپنے عہدے کا حلف لیں گی۔ وزیر اعظم مودی کے مطابق مرمو کو صدر منتخب کرکے بھارت نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4EUqZ
Indien - Droupadi Murmu
تصویر: IANS

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے) کی صدارتی امیدوار دروپدی مرمو کی کامیابی پہلے سے ہی طے تھی۔ تاہم ضابطے کے مطابق ووٹنگ ہوئی اورانہیں 64.03  فیصد ووٹ ملے جب کہ ان کے حریف اپوزیشن اتحاد کے امیدوار سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے 35.97 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

دروپدی مرموبھارت میں اعلیٰ ترین آئینی عہدے پر پہنچنے والی پہلی قبائلی اور دوسری خاتون صدر بن گئیں۔ اس سے قبل سن 2007 میں پرتبھا پاٹل بھارت کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئی تھیں۔

چوسٹھ سالہ مرمو رام ناتھ کوووند کی جانشین ہوں گی۔ وہ بھارت کی سب سے کم عمر صدر کے علاوہ ملک کی آزادی کے بعد پیدا ہونے والی پہلی صدر بھی ہوں گی۔ انہیں 25 جولائی کو عہدے کا حلف دلایا جائے گا۔ ملک اور بیرون ملک کے رہنماوں کی جانب سے مرمو کو مبارک باد دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

وزیراعظم مودی نے کیا کہا؟

جمعرات کی رات کوصدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے سینیئر کابینی رفقاء کے ساتھ مرمو کی عارضی رہائش گاہ پر پہنچے اور انہیں اس "تاریخی کامیابی'' پر مبارک باد دی۔ مودی نے اس کے بعد یکے بعد دیگر چار ٹویٹ کیے۔

مودی نے لکھا،"بھارت نے تاریخ رقم کردی ہے۔ ایسے وقت میں جب 1.3 ارب بھارتی آزادی کا امرت مہوتسو (75 ویں سالگرہ) منارہے ہیں تب مشرقی بھارت کے ایک دور افتادہ علاقے میں پیدا ہونے والی قبائلی فرقے کی بیٹی کو ہمارا صدر منتخب کیا گیا ہے۔ دروپدی مرمو جی کو اس کامیابی کے لیے مبارک باد۔"

ایک دیگر ٹویٹ میں وزیر اعظم مودی نے کہا،"دروپدی مرمو جی کی زندگی، ان کی زندگی کی ابتدائی جدوجہد، ان کی شاندار خدمات اور ان کی قابل تقلید کامیابی ہر بھارتی شہری کو مہمیز کرتی ہے۔ وہ ہمارے شہریوں بالخصوص غریبوں،حاشیے پر رہنے والے افراد اور دلتوں کے لیے امید کی کرن کے طور پر ابھری ہیں۔"

بھارتی صدر کا عہدہ بڑی حد تک رسمی

خیال رہے کہ بھارت کا صدر یوں تو تینوں افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے لیکن تمام تر انتظامی امور کا فیصلہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہی کرتی ہے۔ اس لیے بھارتی صدر کو بالعموم ''ربراسٹیمپ" بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے باوجود سیاسی عدم استحکام، معلق پارلیمان اور مخلوط سیاست کے دور میں صدر کا رول کافی اہم ہوجاتا ہے۔ کئی معاملات میں صدر کا فیصلہ انتہائی غیر معمولی ثابت ہوتا ہے۔ صدر کو کسی سزائے موت یافتہ شخص کو معافی دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے صدارتی امیدوار یشونت سنہا نے دروپدی مرمو کو کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے ٹویٹ کیا،"اہل وطن کو امید ہے کہ پندرہویں صدر کے طور پر وہ کسی خوف یا جانبداری کے بغیر آئین کے محافظ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔"

دروپدی مرمو کون ہیں؟

 دروپدی مرمومشرقی ریاست اوڈیشہ کے میوربھنج ضلعے میں پیدا ہوئیں، جو بھارت کے انتہائی دور افتادہ اور سب سے خستہ حال اضلاع میں سے ایک ہے۔ گاوں میں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے ریاستی دارالحکومت بھونیشورکے رامادیوی وومنز کالج سے گریجویشن کیا اور ایک سرکاری دفتر میں کلرک کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

بھارت کے سب سے قدیم اور بڑے قبائلی گروہوں میں سے ایک سنتھال سے تعلق رکھنے والی مرمو سن 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئیں جب ان کا نام ممکنہ صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آیا، اس وقت وہ جھارکھنڈ کی گورنر تھیں۔ تاہم بی جے پی نے ان کی جگہ ایک دلت رہنما اور اس وقت بہار کے گورنر رام ناتھ کووند کو ترجیح دی۔

انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغازاپنے قصبے کے بلدیاتی کونسلر کے طورپر کیا۔ بی جے پی میں شمولیت کے بعد وہ دو بار ریاستی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں اور ریاست کی مخلوط حکومت میں وزیر بھی رہیں۔ سن 2015 میں جب انہیں جھاڑکھنڈ کا گورنر بنایا گیا تو وہ اس بھارتی ریاست میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے والی پہلی گورنر تھیں۔

سادہ زندگی گزارنے والی مرمو کو زبردست قوت ارادی کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ سن دو ہزار نو سے سن دو ہزار پندرہ یعنی چھ برسوں کے درمیان انہوں نے اپنے شوہر، دو بیٹوں، والدہ اور بھائی کو کھو دیا۔ فی الحال ان کی ایک بیٹی ہیں جو ایک بینک میں ملازمت کرتی ہیں۔

جب بی جے پی نے مرمو کو صدارتی امیدوار اعلان کیا تو انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،"دور دارز ضلع میور بھنج کی ایک قبائلی عورت کی حیثیت سے، میں نے کبھی اتنے اعلیٰ عہدے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔"

Indien Symbolbild Frauen
تصویر: Parth Sanyal/REUTERS

کیا قبائلیوں کی قسمت بدلے گی؟

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرمو کا صدربننا قبائلی سماج کو بااختیار بنانے کی علامت ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت میں قبائلیوں کے خلاف مظالم کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سن 2020 میں قبائلیوں کے ساتھ زیادتیوں کے 8272 کیسز درج کیے گئے جو کہ سن 2019 کے مقابلے 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔ عدالتوں میں قبائلیوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے کم از کم 10302  کیسز زیرالتوا ہیں اورجن کیسز میں سماعت مکمل ہوئی ان میں سزا کی شرح صرف 36 فیصد ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے تمام اہم عہدوں پر بالعموم اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو ہی فائز کیا جاتا ہے البتہ وہ بعض اعلیٰ ترین علامتی عہدوں پر نچلی ذات کے افراد کو فائز کرکے ہندوؤں میں پائی جانے والی ذات پات کی تفریق اور تقسیم سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔

دروپدی مرموجب جھارکھنڈ کی گورنر تھیں۔ اس وقت ریاست میں بی جے پی حکومت پر قبائلیوں پر بہت سارے مظالم ڈھانے کے الزامات عائد کیے گئے۔ بہت سارے قبائلی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا حتی کہ عمر دراز افراد کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات درج کیے گئے۔ مرمو نے اس معاملے میں کبھی بھی مداخلت نہیں کی۔

Indien Bhubaneswar | Präsidentschaftsdebatte - Draupadi Murumu
تصویر: NurPhoto/picture alliance

دروپدی مرمو نے اپوزیشن اتحاد میں پھوٹ ڈال دی

 ایک قبائلی خاتون اور جھارکھنڈ کی سابق گورنر ہونے کے ان کے ریکارڈ کے مدنظر انہیں صدارتی امیدوار نامزد کرنے کی بی جے پی کی حکمت عملی نے اپوزیشن جماعتوں میں پھوٹ ڈال دی۔ اوڈیشہ کی حکمراں بیجو جنتا دل اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلی جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس جیسی غیر جانبدار پارٹیاں بھی سیاسی اسباب کی بنا پر مرمو کو ووٹ دینے کے لیے مجبور ہوگئیں۔

مجموعی طورپر 34 جماعتوں نے اپوزیشن کے امیدوار سابق مرکزی وزیریشونت سنہا کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور 44 نے دروپدی مرمو کی تائید کی تھی۔ تاہم بہت سے اپوزیشن اراکین نے مرمو کے حق میں کراس ووٹنگ کی۔ صدارتی انتخابات میں پارٹی خطوط سے ہٹ کر ووٹ ڈالنا غیر قانونی نہیں ہے۔

اپوزیشن امیدوار یشونت سنہا ایک سابق بیوروکریٹ ہیں۔ ایک زمانے میں وہ بی جے پی کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ اٹل بہاری واجپئی حکومت میں انہیں وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بھی بنایا گیا تھا۔ سن 2021ء میں بی جے پی چھوڑنے کے بعد یشونت سنہا مودی حکومت کی پالیسیوں کے سخت مخالف رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید