دنیا کا سب سے بڑا کُتب میلہ فرینکفرٹ میں
9 اکتوبر 2011منتظمین کے مطابق ٹیکنالوجی کی جدت نے مصنفین کو نئے امتحانوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ایسے میں اپنی تحریروں کے حقوق کو محفوظ رکھنے کے موضوع کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔
بدھ سے شروع ہونے والے اس میلے میں ایک سو سے زائد ممالک کے قریب ساڑھے سات ہزار نمائش کنندگان حصہ لیں گے۔ اس پانچ روزہ کتب میلے میں ایک ہال تخلیقی صنعت سے وابستہ اداروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ نمائش میں نصف سے زائد ایونٹس بھی ڈیجیٹلائزیشن سے ہی متعلق ہیں۔
فرینکفرٹ بُک فیئر کے ڈائریکٹر یورگین بوز کے بقول فلم، ٹی وی اور اشاعتی اداروں کے لیے لکھی گئی تحریروں کے حقوق خریدنے اور فروخت کرنے میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورگین بوز کے بقول یہ تیزی محض گزشتہ سال سالوں میں نوٹ کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’حقوق کی تجارت میں اضافہ ہوا ہے، اب یہ تجارت کمپنیوں، اشخاص اور ایسے ایجنٹوں کے ذریعے کی جارہی ہے، جن سے ہماری ابھی حالیہ برسوں میں شناسائی ہوئی ہے، یکایک ایسے بہت سے لوگ سامنے آئے ہیں، جن سے اب بات کرنا ہوگی۔‘‘
انہوں نے بچوں کے لیے کتابیں لکھنے والی مشہور زمانہ جرمن مصنفہ Cornelia Funke کی کتاب ’’Reckless‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر ایک فلم بنائی جا رہی ہے اور یہ کتاب پہلے ہی روز فلم کے کہانی نویس کے ساتھ بیٹھ کر لکھی گئی۔ ’’ایک کتاب کا معاہدہ محض چند صفحات پر مبنی ہوتا ہے مگر فلمی صنعت میں تو یہ معاہدہ ہزاروں صفحات پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر ایک چیز کا احاطہ ہونا چاہیے۔‘‘
اس ضمن میں ای بُکس (electronic books) کا کردار بھی خاصہ اہم ہے جنہوں نے کتابوں کو اب محض لکھے گئے لفظوں کی قید سے آزاد کرکے انہیں صوتی اور بصری شکل بھی دے دی ہے۔
فرینکفرٹ بُک فیئر کے منتظمین کہتے ہیں کہ اب مصنفین کو چاہیے کہ اپنی تحریروں کے حقوق محفوظ کرتے وقت ملٹی میڈیا پراڈکٹس کو بھی دھیان میں رکھیں۔ اس سال آئس لینڈ کو فرینکفرٹ بُک فیئر میں مہمان خصوصی کے طور پر جگہ دی گئی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادرت: حماد کیانی