دودھ پلانے والی ماؤں کو سہولیات فراہم کی جائیں، عدالت
29 اکتوبر 2019عدالت نے کہا ہے کہ ماؤں کے لیے بچوں کو دودھ پلانے کی جگہوں کا مختص نہ ہونا انسانی زندگی کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس معاملے پر عدالت کی سماعت کرنے کی درخواست کرنے والی وکیل عشرت حسن نے کہا،'' اگر حکومت سگریٹ پینے والوں کے لیے جگہیں مختص کر سکتی ہے تو کیوں ایسے کمرے نہیں بنائے جا سکتے جہاں خواتین اپنے بچوں کو دودھ پلا سکیں۔‘‘
خواتین کی وزارت کے ایک سینئر اہلکار کامرون ناہار کا کہنا تھا کہ ماؤں کے لیے کمروں کی تعمیر کرنا حکومت کی پلاننگ کا حصہ ہے اور حکومت اس حوالے سے کام کر رہی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ دودھ پلانے والی ماؤں کے کمرے شاپنگ مالز، ایئر پورٹ، بسوں کے اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر بنائے جائیں۔ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ دفاتر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
پاکستانی ماؤں میں دودھ نہ پلانے کے رجحان سے بچے کمزور
کیا خواتین عوامی مقامات پر بچوں کو چھاتی سے دودھ پلائیں؟
عشرت حسن کہتی ہیں کہ انہیں اس بات کا اندازہ تب ہوا جب ایک مرتبہ ایئر پورٹ پر ان کا بچہ رونا شروع ہوا اور ان کے پاس اسے دودھ پلانے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔ عشرت نے کہا،'' کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں میں جا سکتی۔ میں نے خود کو بہت بے بس محسوس کیا۔ پھر میں نے سکیورٹی اہلکاروں سے درخواست کی کہ مجھے خواتین اہلکاروں کے کمرے کو استعمال کرنے دیں جہاں وہ سفر پر جانے والی خواتین کی تلاشی لیتی ہیں۔‘‘
اس جنوبی ایشائی ملک میں ایک غیر سرکاری تنظیم 'مدرز ایٹ ورک‘ کپڑوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے باعث ہر چار میں سے ایک خاتون نوکری پیشہ ہے۔ لیکن یہاں خواتین کو مناسب سہولیات اور محفوظ ماحول میسر نہیں ہے۔
عدالت نے ابھی یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا اگلا اقدام کیا ہوگا لیکن عشرت حسن پر اعتماد ہیں کہ عدالت کے پاس حکومت کا رویہ تبدیل کرنے کی طاقت ہے۔
ب ج، ع ا