دہلی: بیرونی ممالک کے تبلیغی جماعت کے تمام افراد بری
16 دسمبر 2020بھارتی دارالحکومت دہلی کی ایک عدالت نے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیرونی ممالک کے ان 36 شہریوں کو بری کردیا جن پر پولیس نے کورونا جیسی عالمی وبا کے دور میں حکومت کی ہدایات کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے مقدمات درج کیے تھے۔ عدالت نے متعلقہ تھانے کے ذمہ دار پولیس افسر اور تفتیشی پولیس اہلکار کی، ملزمان کی شناخت میں غلطیاں کرنے کے سلسلے میں سرزنش بھی کی ہے۔
مودی کی حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والی دہلی کی پولیس نے اس برس مارچ میں الزام عائد کیا تھا کہ بیرونی ممالک سے آنے والے سینکڑوں شہریوں نے کورونا وائرس سے متعلق سخت ہدایات کے باوجود دہلی کے علاقے ’نظام الدین‘ میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں منعقدہ اجتماعات میں شرکت کی تھی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ایسے تمام افراد سیاحتی ویزا پر بھارت آئے تھے اور پھر ویزا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبلیغی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے۔ ساتھ ہی انہوں نے اجتماعات میں شرکت کے بعد دیگر علاقوں کا بھی سفر کیا جس سے کئی ریاستوں میں کورونا کی وبا پھیلی۔
لیکن عدالت نے پولیس کے ان تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں گواہوں کے بیانات میں یکسر تضاد پایا جاتا ہے اور اس کے بر عکس ملزمین کے اس دعوے میں زیادہ سچائی لگتی ہے کہ ’فرد جرم میں جن اوقات کا ذکر کیا گیا ہے اس دوران وہ تبلیغی مرکز میں موجود ہی نہیں تھے۔‘
ملزمین کا موقف تھا کہ نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں جس وقت اجتماع میں ان کی شرکت کا دعوی کیا گيا ہے اس دوران ان میں سے کوئی بھی مرکز ميں موجود نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "پولیس نے انہیں مختلف مقامات سے حراست میں لیا تھا تاکہ بھارتی وزارت داخلہ کی ہدایات کے مطابق بدنام کرنے کے ساتھ ہی ان پر مقدمات بھی دائر کیے جا سکیں۔"
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تفتیش کرنے والے پولیس افسر نے تقریبا ڈھائی ہزار بیرونی ممالک کے شہریوں میں سے حکومت کی ہدایات پر عمل نہ کرنے والے 952 کی صحیح سے شناخت کرلی ہو اور ان پر مقدمہ دائر کر دیا گيا ہو۔ "یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ فہرست وزارت داخلہ کی جانب سے چن کر مہیا کی گئی ہو"۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب پولیس افسران کو اس بات کا مکمل علم تھا کہ اس وقت تبلیغی جماعت کے مرکز میں اتنی تعداد میں افراد موجود تھے تو پھر پولیس کہاں تھی اور اس نے حکومت کی ہدایات پر عمل کروانے کے لیے کیا کارروائی کی۔ عدالت نے ان افراد کو ویزا اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزام سے بھی بری کر دیا ہے۔
تبلیغی جماعت کی طرف سے پیروی کرنے والے وکیل مجیب الرحمن کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے دعوؤں کے حق میں ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ عدالت نے سب سے اہم اشارہ اس بات کی طرف کیا ہے کہ یہ فرد جرم سازش کی بنیاد پر دائر کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، "جج نے کہا کہ جارچ شیٹ دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کو معلوم تھا کہ کرنا کیا ہے۔ چارج شیٹ میں جو کچھ بھی ہے اس کا ثبوت وشواہد سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے، بس آپ نے خود ہی سے یہ طے کر رکھا تھا کہ ان افراد کو ملزم بنا کر ان پر مقدمہ چلانا ہے۔ جج نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس چارج شیٹ کو اگر آپ کسی اسکرپٹ رائٹر سے لکھوا تے تو وہ بہتر لکھ دیتا، آپ نے تو بہت سی غلطیاں کی ہیں۔"
حکومت نے بیرونی ممالک کے 952 شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس میں سے بیشتر افراد نے اعتراف جرم کا حلف نامہ جمع کروایا اور اپنے ملکوں کو واپس چلے گئے تاہم بیرونی ممالک کے 44 شہریوں نے ان مقدمات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان میں سے آٹھ کو عدالت نے کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بری کردیا تھا جبکہ باقی 36 کو اب بری کیا گیا ہے۔
گزشتہ جون میں بھارتی حکومت نے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیرونی ممالک کے ڈھائی ہزار سے بھی زیادہ افراد کے بھارت میں داخلے پر آئندہ دس برس کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ ایسے افراد سیاحت کے ویزا پر بھارت آئے تھے اور اس کے تحت مذہب کی تبلیغی سرگرمیوں میں ان کی شرکت غیر قانونی تھی۔
رواں برس مارچ کے اواخر میں بھارتی میڈیا نے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دی تھی کہ دہلی کی بستی نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز کورونا وائرس پھیلانے کا بھی اہم مرکز ہے اور اس حوالے سے اس پر شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اس تعلق سے مسلمانوں، بالخصوص تبلیغی جماعت کے مرکز کو بری طرح سے نشانہ بنایا تھا۔
نظام الدین میں دہلی پولیس کے تھانے کی دیوار تبلیغی جماعت کے مرکز کی دیوار سے ملی ہوئی ہے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے اچانک جب لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تو اس وقت مرکز میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد مقیم تھے اور وہ سب پھنس کر رہ گئے۔ پولیس اس صورتحال سے اچھی طرح باخبر تھی لیکن حکومت اور بھارتی میڈیا نے اس صورت حال کی تمام ذمہ داری تبلیغی جماعت پر ڈال دی تھی۔