1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب پہنچ گیا

صلاح الدین زین
16 مئی 2022

دہلی میں پہلی بار درجہ حرارت تقریبا پچاس سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملک مارچ سے ہی گرمی کی شدید لپیٹ میں ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4BLzE
Indien | Hitzewelle
تصویر: Satyajit Shaw/DW

بھارتی دارالحکومت دہلی میں پندرہ مئی اتوار کے روز تاریخ میں پہلی بار دو مقامات، نجف گڑھ اور منگیش پور میں درجہ حرارت 49 ڈگری سیلسیس سے بھی زیادہ درج کیا گیا، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ درجہ حرارت درج کرنے والے مراکز میں سے ایک مقام پر 49.2 جبکہ دوسرے مقام پر49.1 درجہ حرارت درج ہوا۔

اس کے علاوہ دہلی کے دیگر تمام مضافاتی علاقوں میں بھی درجہ حرارت کہیں 48 ڈگری تو کہیں 47 تک تھا۔

حکام کے مطابق ان دنوں میں اوسطاً حرارت میں یہ معمول سے نو ڈگری تک کا اضافہ ہے۔ اس سے قبل مئی کے مہینے میں تقریبا 47 ڈگری تک درجہ حرارت درج کیا جا چکا ہے، تاہم دہلی اور اس کے مضافات میں 49 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت کبھی  بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

 بھارت کے بیشتر شمال یا شمال مغربی علاقوں میں گزشتہ دو ماہ سے مسلسل شدید گرمی پڑنے کے ساتھ ہی گرم ہوائیں بھی چل رہی ہیں۔ نئی دہلی میں محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق زیادہ درجہ حرارت کی وجہ اس برس موسم گرما میں بارش کا تقریباﹰ نہ ہونا ہے۔ 

موسم سے متعلق دہلی کے ادارے میں سائنسدان ستی دیوی کہتی ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ’کی ویسٹرن ڈسٹربینس‘ کی شدت بہت کم تھی اسی لیے دہلی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا، ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ دہلی میں گرمی کو روکنے کے لیے اب تک کوئی بارش نہیں ہوئی۔‘‘

Indien | Hitzewelle
تصویر: Satyajit Shaw/DW

موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح ثبوت


لیکن ماحولیات کے ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اس قدر شدت اور اچانک موسم بدلنے کے رجحانات اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں بہت تیزی سے پنپ رہی ہیں۔ رواں برس مارچ میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں گزشتہ ساٹھ برسوں میں پہلی بار  اوسط سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔

آب و ہوا پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لیے درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ ان کے مطابق وہ گزشتہ کئی برسوں سے اس بارے میں آگاہ کرتے رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف ہوائی کے پروفیسر کیمیلو مورا نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’مجھے سب سے زیادہ، جو چیز غیر متوقع معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس پر زیادہ تر لوگ حیران ہیں، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ہمیں اس طرح کی آفات کے آنے کے بارے میں کتنے عرصے پہلے خبردار کیا گیا تھا۔‘‘

بھارت میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1980ء کے مقابلے میں گرم ہواؤں اور حدت سے ہونے والی اموات میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ برکلے ارتھ کے لیڈ سائنس دان رابرٹ روہڈے نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’گرمی کی اس شدید لہر سے ہزاروں مزید افراد کی ہلاکت کا امکان ہے۔‘‘ ان کے مطابق دیگر خطوں کی بہ نسبت گرمی کی لہروں سے اس خطے  کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ 

امپیریل کالج لندن میں گرانتھم انسٹی ٹیوٹ کی سائنس دان فریڈریک اوٹو کا کہنا ہے، ’’ہیٹ ویو میں کتنی شدت آئی ہے اور مستقبل میں اس میں کتنے اضافے کا مزید امکان ہے،  ہم اب بھی اسی پر کام کا کر رہے ہیں۔‘‘ 

تاہم انہوں نے کہا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا گیم چینجر ہے۔ جو کچھ بھی ہم اس وقت مشاہدہ کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ  مستقبل میں عالمی سطح پر دو سے تین ڈگری سیلسیس تک کا اضافہ ایک عام بات ہو گی۔‘‘


اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید