ذیابیطس اور امراض قلب امیر و غریب دونوں معاشروں میں یکساں
16 مئی 2012ڈبلیو ایچ او کے تازہ ترین اعداد و شمار کا تعلق ترقی یافتہ سے لے کر غریب اور ترقی پذیر معاشروں تک پھیلنے والی بیماریوں مثلا ذیابیطس اور امراض قلب کی صورتحال سے ہے۔ ان سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں ہر تین بالغ افراد میں سے ایک کو ہائی بلڈ پریشر کا سامنا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی تمام اموات میں سے تقریبا نصف کی وجہ فالج اور دل کی بیماریاں بنتی ہے۔ ان کا تعلق لائف اسٹائل اور غذا سے ہے۔ اس صورتحال سے افریقہ کے چند ممالک کی بالغ افراد پر مشتمل آبادی کا نصف حصہ متاثر ہو رہا ہے۔
جینیوا میں قائم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سالانہ گلوبل رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کے ہر دسویں انسان کو ذیابیطس کے مرض کا سامنا ہے۔ یہ وہ بیماری ہے، جس کے علاج پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ ذیابیطس کے شکار افراد کو ہر وقت امراض قلب، گردے کے ناکارہ ہونے اور بینائی سے محروم ہونے کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحرالکاہل کے جزیروں پر قائم چند ممالک کی آبادیوں کا تقریبا ایک تہائی حصہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ اب تک یہی تصور کیا جاتا تھا کہ ذیابیطس، امراض قلب اور کینسر یا سرطان جیسی کُہنہ بیماریاں بنیادی طور پر امیر ممالک اور دولت مند اقوام میں بھی پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ وہاں فیٹ سے بھرپور غذا، الکوحل کا استعمال اور تمباکو نوشی ہوتی ہے۔ یہ تمام عوامل صحت کے لیے سب سے بڑے خطرات کی حیثیت ہیں۔ تاہم ڈبلیو ایج او کی تازہ ترین رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ وجوہات کے سبب دنیا بھر میں ہونے والی اموات کا 80 فیصد بہت کم اور متوسط آمدنی والے معاشروں میں رونما ہوتی ہیں۔
افریقی ممالک میں تمباکو نوشی، روایتی کھانوں سے ہٹ کر مغربی طرز کی غذاؤں کا استعمال اور جسمانی ورزش میں کمی جیسے عناصر کُہنہ اور متعدی بیماریوں میں تیزی سے اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افریقہ میں کُہنہ اور غیر متعدی دونوں طرح کی بیماریوں کی شرح اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ 2020ء تک اموات کا باعث بننے والی دیگر بیماریوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ بیماریاں اموات کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوں گی۔
ڈبلیو ایچ او کی امسالہ اعداد و شمار سے متعلق اس رپورٹ میں پہلی بار 194 رکن ممالک کے مردوں اور خواتین میں ہائی بلڈ پریشر، اور ذیابیطس کی شرح شامل کی گئی ہے۔ نیز اس میں موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح سے متعلق اعداد و شمار بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق 1980ء سے 2008ء کے درمیان دنیا کے تمام خطوں میں اور ویٹ یا موٹاپے کی شرح دوگنا ہو چُکی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے اندر موٹاپے کے امکانات زیادہ پائے گئے ہیں اور اس کے سبب عورتوں میں ذیابیطس، قلبی امراض اور کینسر یا سرطان کے خطرات زیادہ پائے جاتے ہیں۔
km/ia (Reuters)