ذیابیطس کے خلاف ادویات سازی اس صنعت کے لیے کروڑوں کی کمائی کا ذریعہ
16 ستمبر 2012ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 400 ملین سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کی سب سے بڑی وجہ جدید دور کا لائف اسٹائل ہے۔ برازیل، چین، بھارت اور کئی دیگر معاشروں میں تیزی سے خوشحالی آ رہی ہے۔ اس کا دوسرا اور منفی پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر معاشروں میں نامناسب غذا کے استعمال، کم سے کم جسمانی حرکت اور صحت افزا سرگرمیوں میں کمی کے سبب ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ صورتحال اس مرض کے خلاف ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کے لیے نئی تحقیق کرنے کا ایک بڑا موقع ہے کیونکہ ذیابیطس کے خلاف ادویات سازی اس صنعت میں کروڑوں کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ یہ امر تعجب کا باعث نہیں کہ اس وقت شاید ہی کسی دوسری بیماری پر اتنی زیادہ ریسرچ ہو رہی ہے جتنی کہ ذیابیطس پر۔
اولیور کو بالکل پتہ نہیں کہ اس پر غالب آ جانے والی انتہائی زیادہ تھکن کہاں سے اور کیوں محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ساتھ ہی اُس کا وزن بھی تیزی سے گرنا شروع ہو گیا اور اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُسے اپنے مثانے پر بہت زیادہ دباؤ محسوس ہونے لگا اور پیشاب بھی بہت زیادہ آنے لگا۔ اولیور اس وقت 18 سال کا تھا اور ڈاکٹروں کی تشخیص سے پتہ چلا کہ اُسے ذیابیطس ٹائپ 1 ہے۔ شہر ہینوور سے تعلق رکھنے والا یہ طالبعلم گزشتہ دس برسوں سے انسولین لے رہا ہے۔ وہ کہتا ہے،’میں رات کو بستر پر جانے سے پہلے ہر شام انسولین کا ایک ٹیکہ لیتا ہوں۔ یہ انسولین 24 گھنٹوں کے لیے ہوتی ہے۔ میں مختلف اوقات میں، کبھی نہار منہ اور کبھی دن کے کسی دوسرے پہر اپنی شوگر ٹیسٹ کرتا ہوں اور اس کے نتیجے کے مطابق انسولین کی مقدار طے کرتا ہوں۔ چوبیس گھنٹے یہ سوال ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا مجھے اب کچھ پینا یا کھانا چاہیے‘۔
دنیا بھر کے طبی ماہرین انسولین کے انجکشن کے متبادل کی ایجاد کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ذیابیطس ٹائپ 1 کے شکار نوجوان مریضوں کو ہر وقت اس ٹیکے کے بارے میں سوچتے نہ رہنا پڑے۔ اب تک ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کئی طرح کی حکمت عملی سامنے آئی ہے۔ مثال کے طور پر ’مونوکلونل اینٹی باڈی یا ضد جسم‘ کی مدد سے جسم کے مدافعتی نظام میں مداخلت کا طریقہ کار۔ یہ تجربہ عالمی سطح پر کی جانے والی کلینیکل کوششوں میں بروئے کار لایا گیا۔ اس میں ہینوور شہر کا یونیورسٹی کلینک بھی شامل تھا۔ اس کلینک کے ایک ماہر ایلمار ژَیکل کہتے ہیں،’ایک طرف ہمارا یہ خیال ہے کہ ایشیائی ممالک میں ذیابیطس ٹائپ 1 کی وجوہات ممکنہ طور پر دیگر ممالک سے مختلف ہیں کیونکہ وہاں مدافعتی نظام میں خلل کی بنیاد جینیاتی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی عنصر بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس بارے میں جن انسانوں پر ریسرچ کی گئی، وہ واضح طور پر عمر رسیدہ اور کہیں زیادہ وزن کے حامل پائے گئے‘۔
جرمن ماہر ایلمار ژَیکل کا کہنا ہے کہ آئندہ ریسرچ اس بارے میں ہونی چاہیے کہ ’مونوکلونل اینٹی باڈی‘ کی مدد سے جسم کے مدافعتی نظام میں مداخلت کا طریقہ کار ذیابیطس 1 کے تمام مریضوں کے لیے فائدہ مند کیوں ثابت نہیں ہوتا؟
M. Engel, km / hj, mm