روہنگیا قتلِ عام: "نسل کشی" نہ قرار دینے کی امریکی وجہ
28 مارچ 2021نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے آخری ہفتوں میں امریکی دفتر خارجہ کے اہلکاروں نے وزیر خارجہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ میانمار میں روہنگیا قتل عام روکوانے کے لیے اسے 'نسل کشی‘ قرار دیں۔
تاہم انہوں نے اس تجویز کو نظرانداز کردیا ور یہ واضح نہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا کا حال بُرا، مستقبل تاریک
امریکی وزارتِ خارجہ کی انکوائری
روہنگیا مسلم اقلیت کو سن 2017 سے میانمار میں فوجی آپریشن کا سامنا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی سفارشات میں میانمار کی فوج کے سینیئر جرنیلوں کوعدالتی عمل سے استثنیٰ دینے کی مخالفت کی گئی تھی۔ ان سفارشات میں مائیک پومپیو کو تجویز کیا گیا تھا کہ وہ اس مسلم اقلیت کے قتلِ عام کو 'نسل کشی‘ قرار دیں تاکہ فوجی جرنیلوں پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
مگر ایسا نہیں ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹرمپ حکومت کے جانے کے دو ہفتوں بعد میانمار کی فوجی قیادت نے جمہوری حکومت کو فارغ کر کے خود اقتدار پر قبضہ لیا۔
امریکی اثر و رسوخ محدود
امریکی اہلکار مانتے ہیں کہ میانمار پر اب ان کا اثر و رسوخ محدود ہے اور فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ بھی شاید اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
بنگلہ دیش میں دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ میں خاموش احتجاج
امریکی وزارت خارجہ کے شعبے 'گلوبل کرمنل جسٹس‘ کے دفتر کے سربراہ مورزے ٹان روہنگیا قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا قتل عام کی پرزور مذمت نہ کرکے امریکا نے میانمار کے جرنیلوں پر دباؤ بڑھانے کا موقع ضائع کر دیا۔
میانمار کی فوج کا کہنا رہا ہے کہ روہنگیا کے خلاف آپریشن انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھی۔
سوچی کی گرفتاری سے روہنگیا مہاجر خوش کیوں ہیں؟
پومپیو کی ذمہ داری
مورزے ٹان کا کہنا ہے کہ روہنگیا قتل عام کو نسل کشی نہ قرار دینے کی سابق وزیر خارجہ نے کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ اس مناسبت سے جب روئٹرز نے مائیک پومپیو کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ نیوز ایجنسی نے میانمار کی فوج کا موقف لینے کے لیے ان سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے بھی کوئی موقف دینے سے گریز کیا۔
ع ح، ش ج (روئٹرز)