1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریٹائرمنٹ کی عمر کا تنازعہ

12 مئی 2023

حال ہی میں سننے میں آیا کہ فرانس کے مزدور طبقے سے وابستہ افراد احتجاج کر رہے تھے، جس کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی ایک حد تک معطل ہو کے رہ گئی تھی۔ لیکن فرانس کے مزدوروں کی ناراضگی کا سبب کیا تھا؟

https://p.dw.com/p/4R2qs

دراصل وہ صدر ماکرون کے اس اعلان سے خفا تھے کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال سےبڑھا کر 64 سال کر دی جائے گی۔ صدر ماکرون نے اس فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ پینشن کھاتوں میں خسارہ بہت بڑھ گیا ہے اور اس کی وجہ سے معیشت پر بہت دباؤ ہے۔

درحقیقت، ہر ملک اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر، پینشن پالیسی اور آبادی کی اوسط عمر میں ایک تناسب رکھتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔ اگر کسی ملک میں ریٹائرمنٹ کی عمر کم ہو اور اوسط عمر طویل ہو تو ظاہر ہے کہ جو رقم پینشن پر خرچ ہو گی وہ بھی رفتہ رفتہ بڑھتی رہے گی اور اس کا بوجھ معیشت کو برداشت کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے طبی سائنس ترقی کرتی گئی اور اوسط عمر بڑھتی گئی، ویسے ویسے ریٹائرمنٹ کی عمر بھی بڑھتی گئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ترقی یافتہ ممالک ایک عجیب صورت حال سے دو چار ہوتے۔ ان کی معیشت پر تو اثر پڑتا ہی لیکن اس کے ساتھ وہاں کے لوگ سال ہا سال فارغ البال رہتے جب کہ ان پر پورے طور سے بڑھاپے کے اثرات بھی نہیں آتے اور اس صورت حال کا ان ''نوجوان بوڑھوں‘‘کے ذہنوں پر کیا اثر پڑتا ہے یہ ایک علیدہ سوال ہوتا۔

تمام ترقی یافتہ ممالک میں یا تو ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھا دیا گیا ہے یا ملازمت پیشہ افراد پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ ایک مقررہ عمر کے بعد جب چاہیں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی صحت اور ذہنی صلاحیت ان کا ساتھ دے اور ملازمت جاری رہنے کی صورت میں ان کی کارکردگی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ برطانیہ میں یہ عمر67 سال ہو گئی ہے۔ جرمنی میں ریٹائرمنٹ کے لیے یہ عمر 66 سال مقرر کی گئی ہے۔ تمام مغربی یورپی ممالک میں لوگوں کی اوسط عمر 82 سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ فرانسیسی کہتے ہیں کہ ان کے پاس زندگی سے لطف اندوز ہونے کا ایک قدرتی جذبہ ہے جسے دوسری قومیتیں نہیں سمجھ سکتیں۔

پاکستان کا حال تو کچھ اور ہی ہے۔ یہاں تمام ملازمت پیشہ افراد کو پینشن نہیں ملتی۔ تاہم تمام سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ پر پینشن کے حقدار ہیں۔ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے لیکن اکثر افسران کو توسیع بھی مل جاتی ہے اور وہ 60 سال کی عمر کے بعد بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ نجی شعبے میں، مختلف ادارے اپنے ملازمین کے لیےعلیحدہ علیحدہ اصول بناتے ہیں، تاہم حکومت نے غیر سرکاری ملازمین کے لیے ایک علیحدہ ادارہ قائم کیا ہے، جو کہ EOBI یعنی (Employees' Old-Age Benefits Institution) کہلاتا ہے۔ جن اِداروں نے اس میں شرکت حاصل کی ہے اُن کے ملازمین بھی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔

حالانکہ یہ معمولی سی رقم ہوتی ہے لیکن یہ تا حیات دی جاتی ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 65 سال بتائی جاتی ہے لیکن یاد رہے کہ پاکستان میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں۔ ایک چھوٹا اقلیتی طبقہ ہے جو اقتصادی طور پر خوش حال ہے، جس کی اچھی صحت اور آرام دہ زندگی ہوتی ہے اور ان کی اوسط عمر بھی طویل ہوتی ہے جبکہ اکثریت ان افراد کی ہے جو غربت میں زندگی گزارتے ہیں اور انہیں صحت کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں اور اسی وجہ سے ان کی اوسط عمر بھی کم ہوتی ہے۔ پاکستان میں عام طور سے ریٹائرمنٹ کی عمر کےحوالے سے کسی تنازعے کا چرچا نہیں سنا۔ اکثر ذکر ہوتا ہے تو وہ اس بات کا کہ عہدے کے افسران کو تُنخواہ، پنشن اور مختلف مراعات ضرورت سے زیادہ ملتی ہیں یا کسی متنازعہ افسر کو توسیع ملتی ہے تو اس کا ذکر ہو جاتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں سنا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھنے پر عوام میں احتجاج ہوا ہو۔ اس کی وجہ غالباﹰ یہ ہے کہ یہاں بےروزگاری اتنی ہے کہ ریٹائرمنٹ ایک ایسی عیاشی ہے جو کروڑوں کی آبادی کے اس ملک میں مٹھی بھر لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور عموماﹰ پالیسی ساز ہوتے ہوتے ہیں، ان کا تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خوب خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں ہر حال میں زندگی کا لطف ملتا ہے تو رونا کس بات کا؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔