1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابقہ نازی گارڈ کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع

30 نومبر 2009

دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کے لئے قائم نازیوں کے ایک اذیتی کیمپ کے سابقہ محافظ 89 سالہ ڈیمیان یُک کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت آج جنوبی جرمن شہر میونخ کی ایک عدالت میں شروع ہوگئی۔

https://p.dw.com/p/KksW
تصویر: picture-alliance / dpa

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہولو کاسٹ یا یہودی قتل عام کے ایک، ابھی تک زندہ ملزم John Demjanjuk کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا آغاز پیر کو جنوبی جرمن شہر میونخ کی ایک عدالت میں ہوگیا۔

ڈیمیان یُک نامی اس سابقہ نازی ملزم پر الزام ہے کہ نازی دور میں مقبوضہ پولینڈ میں وہ ایک ایسے اذیتی کیمپ کا محافظ تھا، جہاں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اُس نے کُل 27900 یہودیوں کے قتل میں مدد کی تھی۔

آج مقدمے کی سماعت کے پہلے روز، ڈیمیان یُک کو ایک ایمبولینس کے ذریعے عدالت میں لایا گیا، پھر انہیں ایک وہیل چیئر پر بٹھاکر کمرہء عدالت میں پہنچایا گیا۔ پہلے روز صرف 90 منٹ تک جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کے دوران اس ملزم کے ساتھ دو سرکاری سیکیورٹی اہلکار بھی تھے، اور نواسی سالہ ڈیمیان یُک کی خراب صحت کے باعث دوڈاکڑ بھی شروع سے آخر تک کمرہء عدالت میں اُن کے ساتھ رہے۔

Prozess John Demjanjuk Montag 30.11.2009
John Demjanjuk کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت میونخ کی ایک عدالت میں شروع ہو گئی ہےتصویر: AP

ایک فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق، ڈیمیان یُک بہت نحیف لیکن پورے ہوش وحواس میں دکھائی دے رہے تھے۔ اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے پہلے روز وہ جب عدالت میں پہنچے، تو انہوں نے چمڑے کی ایک جیکٹ اور سر پر بیس بال کیپ پہن رکھی تھی، اور ہلکے نیلے رنگ کے ایک کمبل میں لپٹا یہ ملزم وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔

جرمن دفتر استغاثہ کے بقول ڈیمیان یُک ماضی میں پولینڈ میں زوبی بور کے مقام پر اُس نازی اذیتی کیمپ کے محافظ رہے ہیں، جہاں کُل قریب ڈھائی لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں پہنچائے جانے والے یہودی قیدیوں کو، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے تھے، وہاں قائم گیس چیمبرز میں بند کر کے ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ جان ڈیمیان یُک نامی ملزم کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ زوبی بور کے نازی کیمپ میں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں دھکیلنے کا کام یہی شخص کرتا تھا۔

1920 میں یوکرائن میں پیدا ہونے والے ڈیمیان یُک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے شروع میں وہ سوویت فوج میں بھرتی ہو گیا تھا۔ پھر ایک محاذ پر لڑائی کے دوران جرمن فوجی دستوں نے اُسے گرفتار کر کے جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ بعد کے عرصے میں اس کی جان بخشی کر دی گئی، لیکن ساتھ ہی ڈیمیان یُک کو نازی کیمپوں میں یہودیوں کے قتل عام میں مدد کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ جنگ کے بعد یہ ملزم امریکہ چلا گیا، جہاں 1958 میں اُس نے امریکی شہریت حاصل کر لی تھی۔ 1981 میں اس کی امریکی شہریت منسوخ کردی گئی اور اسے ملک بدر کر کے اسرائیل بھیج دیا گیا تھا، جہاں دس سال تک اس کے خلاف مقدمہ تو چلا، لیکن 1993 میں روسی حکومت کی مہیا کردہ کچھ نئی معلومات کی بنیاد پر اسرائیلی سپریم کورٹ نے اسے بری کر دیا تھا۔

ڈیمیان یُک دوبارہ امریکہ پہنچا، لیکن 2005 میں اس کے خلاف اس بنیاد پر ایک نئے مقدمے کی سماعت شروع کی گئی کہ جب اس نے پہلی بار امریکی شہریت کے حصول کی درخواست دی تھی، تو اُس نے امریکی حکام کو اپنے بارے میں جملہ حقائق نہیں بتائے تھے۔ لہٰذا ڈیمیان یُک کی امریکی شہریت دوبارہ منسوخ کر دی گئی۔ پھر ایک جرمن عدالت نے اُسے جنگی مجرم قرار دے دیتے ہوئے اُس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے، تو امریکہ سے اس ملزم کی ملک بدری کی قانونی جنگ شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں ڈیمیان یُک کو حتمی ناکامی اسی سال مئی میں ہوئی، جس کے بعد اسے جرمنی پہنچا دیا گیا۔ آج سے شروع ہونے والی عدالتی کارروائی میں ڈیمیان یُک کو ایک جرمن عدالت کو یہ جواب دینا ہوگا کہ اُس نے ہزاروں یہودیوں کے نازیوں کے ہاتھوں قتل میں مدد کیوں کی تھی۔ ملزم کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹری مشورے کے نتیجے میں یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے کہ ڈیمیان یُک کے خلاف کسی بھی دن مقدمے کی سماعت زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹے تک کی جائے گی۔

رپورٹ : عبدلرؤف انجم

ادارت : مقبول ملک