سانپ کے کاٹنے سے سالانہ 80 ہزار سے زائد ہلاکتیں
23 مئی 2019سال 2014ء کے دوران دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ایبولا وائرس کے بارے میں پڑھا یا جانا، جب یہ جان لیوا بیماری گِنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ظاہر ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے براعظم افریقہ کے مغربی ممالک میں پھیل گئی۔ اس کے علاوہ یہ یورپ اور امریکا تک بھی پہنچی اور اس سبب 11 ہزار کے قریب انسان ہلاک ہوئے۔
تین سال تک اس بیماری نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور مغربی دنیا میں خوف و ہراس کا سبب بنی۔
تاہم جب نیوز اینکرز دنیا بھر میں ایبولا وائرس سے جڑے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے، ایک اور جان لیوا قاتل نے افریقہ کے زیریں صحارا اور جنوب مشرقی ایشیا میں تباہی مچا رکھی تھی اور وہ تھے زہریلے سانپ۔
سانپوں کے کاٹنے کے سبب 2014ء سے 2016ء کے دوران چار لاکھ کے قریب انسان موت کے منہ میں چلے گئے اور یہ تعداد ایبولا وائرس کی نسبت 40 گُنا زائد بنتی ہے۔
حالانکہ سانپ کے کاٹے کے علاج کے لیے دوا موجود ہے جسے ’اینٹی وینوم‘ کا نام دیا جاتا ہے، مگر پھر بھی گزشتہ برس اسی سبب 130,000 اموات واقع ہوئیں جبکہ 300,000 سے زائد افراد مفلوج ہوئے یا ان کے زہر سے متاثرہ اعضاء کاٹنا پڑے۔
اقوام متحدہ نے آج جمعرات 23 مئی کو اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ایکش پلان جاری کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت سال 2030ء تک سانپوں کے کاٹنے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں نصف کمی لانے کا خواہش مند ہے، جس کے لیے 136.76 بلین ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف خطرات کی شکار آبادیوں کو تعلیم دی جائے گی کہ وہ کیسے سانپ کے ڈسنے سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایسی آبادیوں تک اینٹی وینوم ادویات کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جائے گا جہاں عام طور پر یہ علاج بروقت دستیاب نہیں ہوتا۔
ڈبلیو ایچ او سانپ کے کاٹے کی ادویات کو مزید مؤثر بنانے کے علاوہ اس کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی کمی لانے کی خواہشمند ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق بھارت میں سانپ کے کاٹنے کے علاج پر 5,150 ڈالرز تک کا خرچہ ہو جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بہت سے متاثرین تو اس علاج کی خاطر نہ صرف اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں بلکہ وہ اپنے بچوں کی اسکولوں کی فیسیں تک ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
ا ب ا / ک م (کلارے روتھ)