’سب کو حصہ ملے تو سرکاری ملازمین کی کرپشن قابل قبول‘
12 مارچ 2017تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے اتوار بارہ مارچ کو ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق مختلف موضوعات پر رائے عامہ معلوم کرنے والے غیر جانبدار ادارے ’سپر پول‘ کی طرف سے کرائے گئے کرپشن سے متعلق ایک نئے جائزے کے آج اتوار کو شائع ہونے والے نتائج کے مطابق اس سروے میں 1201 تھائی شہریوں سے ان کی رائے دریافت کی گئی۔
جنوبی کوریائی صدر کو دستوری عدالت نے عہدے سے فارغ کر دیا
بھارتی سیاستدان کے لیے تامل ناڈو کی وزارت اعلیٰ کی بجائے جیل
اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف کرپشن کی ’تحقیقات کا آغاز‘
چھ مارچ سے لے کر گیارہ مارچ تک کے چھ روز میں مکمل کیے گئے اس سروے میں قریب 47 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ سرکاری ملازمین کا بدعنوان ہونا بری بات ہے تاہم اگر اس طرح حاصل ہونے والے مالی فوائد میں انہیں بھی حصے دار بنایا جائے، تو وہ اس کرپشن کو ’برداشت‘ کر لیں گے اور ان کے لیے حکومتی ملازمین کا رشوت خور ہونا ’قابل قبول‘ ہو گا۔
ڈی پی اے کے مطابق اس سروے کے نتائج اس پہلو سے بھی قابل غور ہیں کہ ابھی جنوری میں ہی بدعنوانی کے خلاف سرگرم بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنا نیا عالمی کرپشن انڈیکس جاری کیا تھا۔
اس انڈیکس کے مطابق تھائی لینڈ میں ماضی کے مقابلے بدعنوانی بڑھی ہے۔ 2015ء میں دنیا کے بدعنوان ترین ملکوں کی فہرست میں تھائی لینڈ کا نمبر 76 واں تھا، جو 2016ء میں مزید خرابی کے بعد 101 ہو گیا تھا۔
جنوب مشرقی ایشیائی ملک تھائی لینڈ میں بدعنوانی کی روک تھام کے ملکی محکمے کی طرف سے ان دنوں کرپشن کے ایک ایسے بڑے واقعے کی چھان بین بھی کی جا رہی ہے، جس میں ہوائی جہازوں کے انجن تیار کرنے والے ادارے رولز رائس، فضائی کمپنی تھائی ایئر ویز اور کئی سابق اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کو اپنے خلاف تحقیقات کا سامنا ہے۔
تھائی لینڈ کے نیشنل اینٹی کرپشن کمیشن کے مطابق اس سلسلے میں مجموعی طور پر 26 افراد کے خلاف ان الزامات کے تحت تفتیش جاری ہے کہ وہ 2004ء اور 2005ء میں کروڑوں ڈالر مالیت کے ایک بوئنگ ہوائی جہاز اور رولز رائس انجنوں کی خریداری میں بدعنوانی کے مرتکب ہوئے تھے۔