امریکی سرحد پر پھنسے وسطی امریکی مہاجرین اب بھی پُرامید
22 اگست 2020امریکا کا رُخ کرنے والے ہزاروں تارکین وطن کی حالت زار پر کچھ عرصہ قبل تک بھرپور عالمی توجہ مرکوز رہی، لیکن اب یہ توجہ پوری دنیا میں موجود دیگر بحرانوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ ہونڈوراس، نکاراگوا، ایلسلواڈور اور گوئٹے مالا سمیت دیگر وسطی امریکی ممالک کے ہزاروں تارکین وطن اب مایوس ہورہے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کی انہیں عالمی سطح پر نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیے: مہاجر باپ اور بیٹی کی اس تصویر نے دل دہلا دیے
سن 2018 میں ہزاروں متاثرہ افراد نے اپنے اپنے ملکوں میں تشدد اور غربت سے پریشان ہو کر امریکا پہنچنے کے لیے ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا تھا۔ اس مشکل سفر کے دوران کسی کو مارا پیٹا گیا، کوئی لوٹ لیا گیا، تو کسی کو جبر و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ میکسیکو کی شمالی ریاست تاماولیپاس تک پہنچنے والے بہت سارے لوگ کئی ماہ سے وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن کے حوالے سے سخت پالیسیوں کے نتیجے میں ان تارکین وطن کو امریکی سرحد عبور کرنے کے بعد پناہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری جانب ان پناہ کے متلاشی افراد کے لیے کورونا وبا بھی ایک سنگین خطرہ ثابت ہورہی ہے۔
سیاسی پناہ کی منظوری، امید کم
وسطی امریکی ملک نکاراگوا سے تعلق رکھنے والی ماریہ گزشتہ ایک برس سے امریکی سرحد کے قریب میکسیکو کے علاقے ماتاموروس میں رہ رہی ہیں۔ ماریہ تقریباً دو ہزار کلومیٹر دور ساؤتھ کیرولینا میں مقیم اپنی والدہ کے پاس امریکا جانا چاہتی ہیں۔ لیکن امریکی حکام ماریہ کی سیاسی پناہ کی درخواست چار مرتبہ مسترد کر کے واپس ماتاموروس بھیج چکے ہیں۔
دو سال قبل، ماریہ اور اس کے ہزاروں ہم وطن نکاراگوا سے فرار ہوگئے تھے کیونکہ انہوں نے صدر ڈینیل اورٹیگا کی آمرانہ حکومت کی مخالفت کی تھی۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے امریکا نے عارضی طور پر پناہ کی درخواستوں پر کارروائی روک دی ہے اور اب عدالتی معاملات بھی ملتوی کیے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا میں امیگریشن جیل پر حملہ، مظاہرے پھر شروع
ماریا کی اگلی سماعت 11 ستمبر کو ہو گی، لیکن وہ کہتی ہیں کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے جاری انتخابی مہم تک ان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مہاجرین کیمپوں میں ناقص انتظامات
گلوبل رسپونس مینیجمنت (جی آر ٹی) کے امریکی طبی رضاکار رائن کیر نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے ماتاموروس میں موجود تارکین وطن کے لیے ستمبر 2019ء کے دوران جب کیمپ لگائے تو وہاں پینے کے صاف پانی، خوراک اور بیت الخلا کی عدم سہولیات کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات تک رسائی موجود نہیں تھیں۔ کیر کے بقول انہوں نے اب تک تین ہزار سے زائد افراد کا علاج کیا ہے اور وہاں ایک کورونا وارڈ بھی قائم کر رکھا ہے۔
گزشتہ کئی مہینوں کے دوران، بہت سے مہاجرین نے امریکا پہنچنے کی امیدوں کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ متعدد مہاجرین کیمپ چھوڑ کر میکسیکو کے دیگر علاقوں میں دوبارہ نئی زندگی کی شروعات کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کیمپوں میں جو مہاجرین باقی رہ گئے ہیں وہ امریکی امیگریشن وکلا کی مدد حاصل کر رہے ہیں۔
ع آ / ع ح / ا پ