سری نگر : بھارتی وفد کو کشمیری مظاہرین کےاحتجاج کا سامنا
21 ستمبر 2010جب یہ وفد سری نگر کے مرکزی ہسپتال پہنچا تو وہاں موجود کشمیری مظاہرین اور زخمیوں کے گھر والوں اور رشتے داروں نے بھارت مخالف اورکشمیر کی خودمختاری کے حق میں نعرے لگانا شروع کردیے۔
اس صورتحال کے بعد وفد کا ہسپتال میں رکنا مشکل ہوگیا اور ان کو دس منٹ کےبعد ہی وہاں سے روانہ ہونا پڑا۔ بھارتی پولیس نے اس موقع پر دو نوجوان مظاہرین کو مارا اور گرفتار بھی کر لیا۔
نئی دہلی سے کشمیرپہچنے والے اس بھارتی وفد کے سربراہ وزیر داخلہ پی چدمبرم ہسپتال جانے والے بھارتی رہنماؤں میں موجود نہیں تھے۔ اس دوران وہ ٹنگمرگ گاؤں گئے، جہاں گزشتہ ہفتے بھارتی سکیورٹی اہلکاروں نے حکومتی عمارتوں اور مشنری اسکول جلانے پر چھ مظاہرین کو مار دیا تھا۔
یاد رہے پچھلے ہفتے بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے کشمیر میں گزشتہ تین ماہ کے دوران بھارتی دستوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے سو سے زائد کشمیری شہریوں کی ہلاکتوں اور وادی میں جھڑپوں کی نئی لہر پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ اس اجلاس میں ہی جموں کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے مذاکرات کے لئے ایک37 رکنی وفد کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر پیرکوبھارتی زیرِ انتظام کشمیر پہچنے والے اس وفد سے کشمیری رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے ملاقات کرنے سے انکار کر کے نئی دہلی کی جلد بہتری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔
یاد رہے کہ جون سے کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو ا تھا۔ اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کی، جس میں زیادہ تر نوعمر اور نو جوان ہلاک ہوئے۔کرفیو اور ہرتالوں نے سرِی نگر اور کشمیر کے دیگر علاقوں میں زندگی کو معطل کر کے رکھ دیا ہے اور خوراک اور ضروری ادویات کی شدید قلت ہو گئی ہے۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت : عدنان اسحاق