1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی معیشت میں مغربی ریستورانوں کے باعث غیر معمولی ترقی

26 اگست 2021

خشک صحرائی خطوں والی عرب بادشاہت سعودی عرب کا جدید طرز کا اوپن ایئر مال ’دی زون‘ نہ صرف ملکی معیشت کو غیر معمولی ترقی دے رہا ہے بلکہ اس کے گہرے اثرات قدامت پسند مقامی معاشرے اور طرز زندگی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3zWKO
Saudi-Arabien Riad | Neueröffnung Restaurant David Burke
تصویر: AHMED YOSRI/REUTERS

عرب دنیا کے صحراؤں کی رومانوی راتوں کا ذکر یوں تو قصے کہانیوں اور ناولوں میں پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے لیکن جب سے سعودی عرب میں مغربی طرز کے ریستوراں اور کیفے کھلنا شروع ہوئے ہیں، تب سے اس روایتی قدامت پسند معاشرے میں جدید طرز زندگی میں عوامی دلچسپی غیر معمولی حد تک بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ اس کی ایک مثال عالمی شہرت یافتہ شیف ڈیوڈ برک کا سعودی عرب میں کھلنے والا ریستوراں بھی ہے۔ اگست کے اوائل میں ڈیوڈ برک نے ریاض میں اپنے ریستوراں کا آغاز کیا۔ یہ سعودی عرب میں برک کا دوسرا ریستوراں ہے۔ افتتاح کے بعد سے یہ ہر وقت سینکڑوں سعودی مردوں اور خواتین سے بھرا رہتا ہے، جو اس مشہور شیف کے طرح طرح کے کھانوں اور پھلوں کے رس سے بنے 'موکٹیل‘ سے لے کر عرب اور مغربی پاپ موسیقی کا امتزاج پیش کرنے والے ڈی جیز سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اسلحے کے استعمال کے مساوی حقوق: سعودی خواتین کی فوج میں بھرتی

سعودی عرب کی گرمی

موسم گرما میں سعودی عرب میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس ملک کا زیادہ تر رقبہ ریگستانی اور چٹانی علاقوں پر مشتمل ہے۔  زیادہ تر سعودی باشندے گرمیوں میں اپنے ملک سے باہر چلے جاتے تھے اور کسی پرفضا سیاحتی مقام کا انتخاب کر کے اپنی تعطیلات وہاں گزراتے تھے۔ تاہم جب سے ڈیوڈ برک کے بزنس سمیت کئی مغربی طرز کے ریستوراں سعودی عرب کے مشہور اوپن ایئر مال'دی زون‘ میں شائقین کی دلچسپی کا سبب بنے ہیں، تب سے گرمیوں کی شامیں اور راتیں سعودی باشندے اب زیادہ تر انہی جگہوں پر گزارتے ہیں۔

Saudi-Arabien Riad | Neueröffnung Restaurant David Burke
سعودی عرب میں ایک نیا کلچر دیکھنے میں آ رہا ہےتصویر: AHMED YOSRI/REUTERS

کورونا کی وبا

سعودی عرب میں بھی دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح کورونا وائرس کی عالمی وبا نے معمولات زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا تھا۔ لاک ڈاؤن اور وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف احتیاطی تدابیر کے سبب شہریوں کو ہر طرح کی تفریحی اور سیاحتی سرگرمیاں ترک کرنا پڑیں۔ اس ماحول میں سعودی عرب کے اوپن ایئر مالز اور ان میں بنے کیفے اور ریستوراں عوام کو ایک نئے کلچر سے متعارف کرانے کا باعث بنے۔ وہ کلچر جو مغربی معاشروں میں روزمرہ زندگی کا حصہ ہے، سعودی باشندوں میں بھی اس قدر مقبول ہو گیا کہ ملکی شہریوں کو اب مغربی ممالک جانے اور وہاں ایسی سہولیات سے لطف اندوز ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب انہیں یہ سب کچھ اپنے ملک میں ہی میسر ہے۔ علاوہ ازیں اس نئے رجحان نے سعودی عرب میں صارفین کے شعبے کو بھی غیر معمولی تقویت دی ہے۔

’چند ممالک سعودی لڑکيوں کو بغاوت پر اکسا رہے ہيں‘

نجی کھپت میں اضافہ

معاشی اور کاروباری جائزوں کے مطابق سعودی عرب میں رواں سال کی پہلی سہ ماہی  کے دوران صارفین کی نجی کھپت میں 1.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو کورونا کی وبا سے پہلے کی سہ ماہی میں لگائے جانے والے اندازوں سے کہیں زیادہ تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا کی وبا کے سبب سعودی باشندوں کے بیرون ملک اخراجات میں آنے والی کمی نجی کھپت میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔

Saudi-Arabien Riad | Neueröffnung Restaurant David Burke
ریاض کا ڈیوڈ برک ریستوراںتصویر: AHMED YOSRI/REUTERS

اس خلیجی ریاست میں گزشتہ سال مئی کے مقابلے میں رواں سال مئی میں 'سیل ٹرانزیکشن‘ میں 71.7 فیصد اضافہ ہوا۔ مئی کا مہینہ سعودی عرب میں تعطیلات کے لیے سب سے مقبول مہینہ ہے۔ اس مہینے صارفین کے اخراجات کا تخمینہ 40.27 بلین ریال یا 10.7 بلین ڈالر کے برابر رہا۔ پھر جون میں اس میں مزید 4.6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سعودی بینک 'مصرف الراجیحی‘ کے مطابق سعودی عرب میں صارفین کے اخراجات میں سے 96.7 فیصد اضافہ بنیادی طور پر ریستورانوں اور ہوٹلوں پر اور 6.6 فیصد اضافہ اشیائے خورد و نوش کی خریداری سے ہوا۔

ابوظہبی کے کمرشل بینک کی چیف اکانومسٹ کے بقول، ''نجی کھپت بڑے بھرپور انداز میں بحال ہوئی اور یہی رجحان 2021 ء میں صارفین کی طرف سے کھپت میں مزید اضافے کی کلیدی وجہ بنا۔ یہ بات مالی اخراجات میں رکاوٹیں دور ہونے اور سیاحتی شعبے میں ترقی کے ابتدائی مراحل کی نشاندہی کرتی ہے۔‘‘

سعودی معاشرہ: مذہب بھی اور مغرب کی رغبت بھی

Saudi-Arabien Riad | Neueröffnung Restaurant David Burke
ڈیوڈ برک ریستوراں سعودی خواتین کے لیے بھی ایک پر فضا تفریحی مقامتصویر: AHMED YOSRI/REUTERS

اندرون ملک سیاحت

سعودی دارالحکومت ریاض کیفے، ریستورانوں، سینما گھروں اور ہوٹلوں سے بھرا ہوا ہے اور تفریح کے نت نئے مراکز وجود میں آتے جا رہے ہیں۔ عوامی زندگی سے متعلق قوانین و ضوابط میں بتدریج نرمی بھی سعودی کلچر میں اس نئی تبدیلی کی بڑی وجہ ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شیف ڈیوڈ برک نے اس سال اپنا دوسرا ریستوراں کھولا ہے جبکہ وہ سعودی عرب میں ایسے چھ ریستوراں کھولنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان ریستورانوں میں نوجوان سعودی خواتین اور مرد کام کریں گے جبکہ ان کے ہالز میں بجنے والی موسیقی کسی نہ کسی باقاعدہ ڈی جے کی ذمہ داری ہو گی۔ ہر ڈی جے کے ساتھ 'پرکشنسٹ‘ کے طور پر کوئی نہ کوئی ماہر خاتون موسیقار بھی ہو گئی۔ یہ ماحول انتہائی قدامت پسند سعودی معاشرے میں ایک دہائی پہلے تک بالکل ناقابل تصور تھا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملکی معاشرے میں جس جدیدیت اور فکری تبدیلی کا عزم کیا ہے، اسے 'وژن 2030‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ک م / م م (روئٹرز)