سوچی کو مستعفی ہو جانا چاہیے، انسانی حقوق کے کمشنر
30 اگست 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ رعد الحسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس میانمار میں روہنگیا کمیونٹی کے خلاف کیے گئے خونریز کریک ڈاؤن پر نوبل امن انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں انہوں نے سوچی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
میانمار کی ریاست راکھین میں اس مبینہ ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سات لاکھ روہنگیا افراد جان بچا کر بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ مہاجرین کوکس بازار میں واقع عارضی شیلٹر ہاؤسز میں سکونت پذیر ہیں، جہاں کے حالات انتہائی ابتر قرار دیے جاتے ہیں۔
ان مہاجرین کا الزام ہے کہ میانمار کی فوج نے اُن کی خواتین کا ریپ کیا، مردوں کو ہلاک کیا اور املاک کو تباہ کر دیا جبکہ روہنگیا افراد کے گاؤں کے گاؤں نذر آتش بھی کر دیے گئے۔
آنگ سان سوچی کو میانمار کی فوج کی طرف سے کیے گئے ان مبینہ مظالم پر خاموشی اختیار کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس کریک ڈاؤن کی مذمت کے بجائے میانمار کی فوج کی ان کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل یہ ’دہشت گردانہ‘ اعمال کے خلاف ایک آپریشن تھا۔
اس تناظر میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ رعد الحسین نے کہا، ’’وہ (سوچی) کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ خاموش ہی رہتیں اور بہتر ہوتا کہ استعفیٰ دے دیتیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سوچی کو میانمار کی فوج کا ترجمان بننے کی ضرورت نہیں تھی۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میانمار میں مسلم آبادی کی ’نسل کشی‘ پر فوجی سربراہ مِن آؤنگ لائنگ کے خلاف مقدمہ چلانا چاہیے۔ اس رپورٹ میں آنگ سان سوچی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ ماضی میں انسانی حقوق کی سرگرم علمبردار یہ خاتون روہنگیا بحران کے تناظر میں اپنی ’اخلاقی ذمہ داری‘ نبھانے میں ناکام ہوئی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ میانمار میں سول حکومت کے وجود میں آنے کے باوجود تمام تر اختیارات فوج کے پاس ہی ہیں۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے