سیاسی جماعتیں تحریک انصاف سے مذاکرات کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟
29 مئی 2023اس وقت ملک کی مقبول ترین جماعتپاکستان تحریک انصاف کا وجود تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہا ہے اور اس صورتحال نے ایک بار پھر ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات اور مستقبل کے حوالے سے ڈی ڈبلیو نے سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں سے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے، جو آج کل ہر عام آدمی کے ذہن میں ہیں۔
پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں اور اس وقت منظرعام پر نہیں ہیں تاہم تحریک انصاف نے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔
کریک ڈاون: پاکستانی خواتین کی سیاست میں عملی شرکت کو دھچکہ
اس تناظر میں پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''حکومت اگر سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو مذاکرات کی ٹیبل پر آئے اور جمہوری طریقے سے بات چیت کرے۔‘‘
مسلم لیگ نون کا مذاکرات سے انکار
دوسری جانب حکومت کی طرف سے مذاکرات کے معاملے پر متضاد آرا سامنے آ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان مذاکرات سے ہی انکاری ہیں تو کچھ نے عمران خان کے نو مئی کے واقعات پر اعلانیہ معافی کے بعد ہی کسی قسم کے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان کو مذاکرات کی میز پر کون لایا؟
تاہم حکومتی ترجمان نے مذاکرات کی پیش کش کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پر حملہ کرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے، مذاکرات نہیں کیے جاتے۔ ان کے بقول عمران خان مذاکرات نہیں بلکہ این آر او کی اپیل کر رہے ہیں، ''ملک میں آگ لگانے، انتشار پھیلانے، ذہنوں میں نفرت کی آگ بھر کر مسلح جتھے بنانے والوں سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔‘‘
مذاکرات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا مؤقف
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فیصل کریم کنڈی نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف سے مذاکرات صرف غیر مشروط معافی کے بعد ہی ممکن ہیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی میں سے بیشتر ارکان نو مئی کے واقعات میں نامزد ہیں۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی فریق ہیں اور اس معاملے میں صرف فوج کو ہی اصل فریق تصور کرنے کی بات بے بنیاد ہے۔
حکومتی اتحاد مذاکرات سے گریزاں کیوں؟
سینیئر صحافی غازی صلاح الدین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سیاست میں اختلافات حد سے بڑھ جائیں تو پھر مذاکرات سے حل نہیں ہوتے، وہ پھر کسی کی مکمل ہار یا مکمل جیت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان نے کبھی بھی موجودہ حکومت سے مذاکرات کی بات ہی نہیں کی اور اب بھی عمران خان مذاکرات چاہتے ہیں تو وہ اہل اقتدار سے چاہتے ہیں یعنی فوج سے، ''تو حکومت جو ہے، اس وقت اس کھیل میں ہے ہی نہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت اس سارے کھیل میں نہ کھلاڑی ہے نہ ریفری ہے۔‘‘
بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کے اثرات کیا ہوں گے؟
غازی صلاح الدین کا کہنا ہے کہ پولرائزیشن پاکستان جیسے ملک میں ہوتی ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کچھ بنیادی مسائل ہیں اس ملک کے، وہ اس وقت حل ہوں گے، جب نظریاتی طور پر لوگ اپنی صف بندی کریں گے، ''تو پولرائزیشن تو ہونا ہے لیکن عمران خان کی شخصیت کے حوالے سے غلط پولرائزیشن تھی، اس میں کوئی نظریاتی عنصر نہیں تھا۔ وہ اس لیے کہ عام آدمی، جو طالبان کا حمایتی ہو، وہ بھی ان کے ساتھ تھے اور پنجاب کی ایلیٹ اور اعلیٰ طبقہ کے لوگ ہیں، وہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کا آپس میں کوئی نظریاتی تعلق نہیں بنتا۔‘‘
حکومت کے پاس اور بھی حربے ہیں
تجزیہ کار اور صحافی نفيس نعيم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کو توڑنے کے لیے حکومت کے پاس بہت حربے ہیں، ''مذاکرات کی پیش کش کو رد کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت اب عمران خان کو مزید نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانا چاہتی ہے، یہ جنگ کا اصول ہے کہ مذکرات سے پہلے یا سیز فائر سے پہلے آپ دشمن کے خلاف بھرپور کارروائی کر کے اسے گھٹنوں پر بٹھانا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو اس وقت گرفتار کرنا یا جلا وطن کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، ''جیل میں ڈالنے پر عمران خان کی مقبولیت بڑھ جائے گی اور اگر انہیں سیاست سے باہر رہنے کا معاہدہ کروا کر بیرون ملک بھیجا گیا تو وعدہ خلافی اور یو ٹرن کے ماہر ہیں۔ ان پر اس حوالے سے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
عمران خان کا سیاسی طور پر مشکل ترین دور
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت اب بھی برقرار ہے اور اس سپورٹ میں کمی نہیں آئی تاہم سیاسی طور پر عمران خان کے لیے بہت سے مسائل ہیں، ان کا اپنی پارٹی اور سیاسی رہنماؤں سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مذاکراتی کمیٹی میں نامزد کیے گئے بیشتر رہنماؤں کے موبائل فونز بند ہیں اور ان سے رابطے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی۔