’سیاسی و تجارتی کردار‘، پاکستانی فوج تنقید کی زد میں
27 اپریل 2018ملکی اعلیٰ عدلیہ اور اعلی ترین عدلیہ کی طرف سے فوج کے کردار پر اٹھائے جانے والے ان سوالات پر سوشل میڈیا پر خوب بحث اور تبصرے ہو رہے ہیں۔ بدھ کو فیضِ آباد دھرنے از خود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ نے ملک کے سب سے بڑے سراغ رساں ادارے آئی ایس آئی کی کارکردگی پر تنقید کی۔
اسی دن اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی نے آرمی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے معاشی و تجارتی کردار پر سوالات اٹھائے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق جسٹس صدیقی نے کہا کہ دنیا کی کوئی فوج تجارتی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے، ’لیکن ہماری (فوج) تو سیمنٹ، گوشت اور بریڈ تک بیچ رہی ہے‘۔
کیا پاکستان میں کچھ عناصر احتساب سے بالا تر ہیں؟
کیا سعودی عرب میں فوجی بھیجنا دانشمندانہ فیصلہ ہے؟
نواز شریف بمقابلہ چیف جسٹس، ’جنگ‘ کہاں تک جائے گی؟
تنقید کا یہ نیا سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے، جب رواں ماہ ہی پاکستان کی پانچ بڑی سیاسی پارٹیوں نے مشترکہ طور پر کہا تھا کہ ملکی فوج اور عدلیہ کو اپنا آئینی کردار ہی ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے ’سپریم لیڈر‘ نواز شریف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی، جماعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور نیشنل پارٹی کے صدر حاصل بزنجو نے ’حکومتی انتظامیہ میں فوج اور عدلیہ کے بڑھتے ہوئے کردار‘ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ’پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا۔ ان رہنماؤں نے خبردار کیا کہ اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو سن 1971 والی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔
’جبر کا ماحول‘
دوسری طرف ملک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات کا گلہ کر رہی ہیں کہ پاکستان میں جبر کا ماحول اپنے عروج پر ہے اور اختلاف رائے کو سختی سے دبایا جارہا ہے۔ حال ہی میں ملک کے سب سے بڑے چینل جیو کی نشریات کو غیر اعلانیہ طریقے سے بند کر دیا گیا تھا جب کہ جنگ گروپ کے اخبارات کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
جیو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ معزول وزیرِ اعظم نواز شریف کا حامی ہے اور ملک کے طاقتور ریاستی اداروں کا نقاد ہے۔ آزادی اظہار رائے کی تنظیموں کے خیال میں جیو کے خلاف یہ غیر اعلانیہ پابندی ملک کے طاقتور ریاستی اداروں کے اشاروں پر لگائی گئی تھی۔
اس کے علاوہ ملک میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی کراچی سے لال سلام نامی ایک بائیں بازو کی جماعت کے گیارہ کارکنان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر اٹھایا گیا، جن میں سے کچھ اب تک غائب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ریاستی اداروں کو ان گمشدیوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔
فوج کے سیاسی اور تجارتی معاملات پر بحث سوشل میڈیا پر جمعرات کے دن بھی جاری رہی۔ اس بحث کی وجہ بنا گلگت بلتستان چیف کورٹ کا وہ فیصلہ جس کے مطابق فوج سے منسلک ایک کمیونیکیشن ادارے کو شمالی علاقوں میں تھری جی اور فور جی سروس کو آزمائشی طور پر چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔
’فوج کی تجارتی سرگرمیاں کم نہیں ہوں گی‘
کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں فوج کا معاشی و تجارتی کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ معروف مصنفہ عائشہ صدیقہ نے فوج کے بڑھتے ہوئے معاشی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’عدالتیں ان معاشی و تجارتی سرگرمیوں پر تبصرے کر سکتی ہیں لیکن انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے بھی ایک جج نے اپنے فیصلے میں اس کردار پر تنقید کی تھی اور یہاں تک کے انہوں نے ان اداروں کو لالچی بھی قرار دیا۔‘‘
عائشہ نے کہا کہ انہوں نے اس کا تزکرہ اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’لیکن فوج کی تجارتی سرگرمیاں اس سے کم نہیں ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔ فوج کا ایک ادارہ کوپر مائننگ اور تیل وگیس کی دریافت کرنے کا کاروبار میں بھی آگیا۔ ایک دوسرا ادارہ سیف سٹی پروجیکٹ پر نظریں لگائے ہوئے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مائننگ سے منسلک اس ادارے نے دس برسوں سے اپنا آڈٹ بھی نہیں کرایا ہے۔ اب فوج سے منسلک ایک کمیونیکشن کمپنی پورے ملک میں اپنا نیٹ ورک پھیلانا چاہتی ہے اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ اسے ڈیوٹی سے مستثنیٰ بھی قرار دیا جائے۔ ‘‘
’فوجی کی بھی آئینی حد ہے’
فوج کے سیاسی و تجارتی کردار پر سیاست دان بھی چراغ پا ہیں ۔ تاہم ان میں سے کئی کھل کر تنقید کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ کے خیال میں فوج اپنا آئینی کردار ادا نہیں کر رہی ہے، ’’فوج کی آئینی حد یہ ہے کہ وہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرے لیکن یہاں تو فوج سیاست میں بھی ملوث ہوتی ہے اور تجارت بھی کرتی ہے۔ بینک، انشورنس، ٹرانسپورٹ، سیمنٹ، پانی، کھاد اور رئیل اسٹیٹ، آپ مجھے کوئی ایک شعبہ بتائیں کہ جس میں فوج ملوث نہ ہو۔ یہ ان کے پروفیشن کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فوج بہت طاقتور ادارہ ہے اور اس کو سویلین اتھارٹی کے ماتحت لانا بہت مشکل ہے۔ تاہم اس طاقت ور ادارے کو چیلنج کرنے والی ن لیگ کہتی ہے کہ وہ اگلے انتخابات کے بعد ایک ایسا میکنزم متعاراف کرائے گی، جس کے تحت اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہے کر کام کرنا پڑے گا۔
ان لیگ کے پارٹی کے سینیئر رہنما مشاہد اللہ خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر معزز جج صاحبان نے کوئی بات کی ہے تو ان کے پاس اس کی یقیناً دلیل ہو گی اور ججز کے تاثرات کی اگر تردید نہیں آئی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صیح ہیں لیکن ایسے سوالات صرف ججوں کے ذہن میں ہی نہیں ہیں بلکہ عام آدمی بھی اس طرح کے سوالات اٹھا رہا ہے۔‘‘
مشاہد اللہ خان کے بقول، ’’ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ فیض آبادکے دھرنے میں کس نے پیسے تقسیم کیے۔ ایسے کاموں سے ریاستی اداروں کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہے کر کام کریں ۔ ہم اگلا الیکشن جیت کر اس حوالے سے قانون سازی کریں گے جس کے تحت تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا پڑے گا۔‘‘
’فوج کو بدنام کرنے کی کوشش‘
فوج سے قربت رکھنے والے تجزیہ نگار اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں عسکری ادارے قومی وسائل کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سب سے پہلے یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان کی آرمی ہی اس طرح کے تجارتی کام کرتی ہے۔ ترکی اور مصر سمیت دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی فوجی ادارے اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔‘‘
امجد شعیب نے مزید کہا، ’’لوگوں کو معلوم نہیں کہ فوجی فاؤنڈیشن کی بنیاد ان پیسوں سے رکھی گئی تھی جو تقسیم ہند کے بعد فوج کو ملے تھے۔ ملک میں تیس لاکھ ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ ہمارا سپاہی چونتیس سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوجاتا ہے۔ پندرہ ہزار سے زائد فوجی صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زخمی اور معذور ہوئے ہیں۔ فوجی فاونڈیشن ان کے لیے اسکول، طبی اداروں سمیت ویلفیئر کے متعدد پروجیکٹس بھی چلاتی ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہم کو کوئی سبسڈی ملتی ہے۔ ہمارے ادارے مارکیٹ میں دوسری کمپنیوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ ایک جج نون لیگ کے ایک رہنما کا رشتے دار ہے اور وہ فوج کو بدنام کرنے کے لیے اس طرح کے تاثرات دیتا ہے۔‘‘